
ریحان اعظمی کی شخصیت پر ایک نظر
تحریر : عین علی
یوں تو ریحان اعظمی صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر بات کی جاسکتی ہے لیکن اس تحریر میں ہم ان نکات کو پیش کررہے ہیں کہ جوریحان اعظمی سے ملاقاتوں اور نشستوں کی روداد کی بنیاد پر ذاتی مشاہدات پر مشتمل ہیں۔
دنیائے ادب میں قدم رکھتے ہی سید ریحان عباس رضوی نے ریحان اعظمی کی حیثیت سے اپنی دبنگ ادبی حیثیت منوالی تھی۔ انہیں قریب سے جاننے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ ایک سادہ زیست آدمی تھے۔ زندگی گذارنے کے لیے انہیں جو آمدن درکار تھی، اس کے لیے انہیں بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔
ریحان اعظمی کی شخصیت پر ایک نظر
بدقسمتی سے ادب اور وہ بھی اردو ادب، یہ کوئی ایسا شعبہ نہیں کہ ادیب ہوتے ہی آپ پر ہن برسنے لگے۔ البتہ ادب میں نام کمانا پیسے کمانے کی نسبت بہت زیادہ آسان ہے۔ یوں ریحان اعظمی نے جتنا نام کمایا، اتنے پیسے نہ کماسکے۔ اردو ادب کی قد آور شخصیات کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے، نہیں معلوم، لیکن یہ المیہ قابل نظر انداز نہیں۔
ریحان اعظمی صاحب کی شاعری
بات ہورہی تھی ریحان اعظمی صاحب کے ذرایع آمدن کی۔ مجھ حقیر کی ان سے ملاقاتوں کا سلسلہ رہا۔ 1980ع کے عشرے کے وسط سے، لڑکپن کے دور سے انکی شاعری سے مانوس تھا۔ اسی کے عشرے کے اواخر سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
ریحان اعظمی انیس سو نوے کے عشرے میں
انیس سو نوے کے عشرے میں ریحان اعظمی جب شہرت کی بلندیوں پر فائز تھے تب بھی اخبارات و جرائد کے دفاتر میں نوکری کرنے پر مجبور تھے۔ کالم کلوچ کے عنوان سے کالم لکھا کرتے تھے۔ ایک اسکول میں بھی ملازمت کرتے رہے۔
ریحان اعظمی کی شخصیت کا خاصا
یہ صرف ریحان اعظمی کی شخصیت کا خاصا تھا کہ کوئی بھی لڑکا یا نوجوان، ان سے فرمائش کرتا، درخواست کرتا کہ ریحان بھائی کوئی کلام لکھ دیں، توبلا تاخیر اسی وقت کھڑے کھڑے یہ فرمائش پوری کردیتے۔
وجوانوں کے لیے انکا رویہ شفقت آمیز رہا
مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ میرے پاس کاغذ تک نہیں تھا اور اگلے دن کہیں سلام پڑھنا تھا۔ شب بیداری کے اس وقت کہیں سے کوئی کاپی کاغذ خریدنا ممکن نہیں تھا۔ بحالت مجبوری سگریٹ کے ایک پیکٹ کے اندر کے کاغذ کو نکال کر ان سے کلام لکھوایا۔
کبھی ڈائری پیش کی تو اس پر انہوں نے کلام لکھ دیا۔ انکے ہاتھ کا لکھا وہ کلام آج بھی محفوظ ہونا چاہیے،۔ جب ہم نے یہ شعبہ اپنے دوستوں کے حوالے کیا تو وہ ڈائریاں بھی دوستوں کے حوالے کردیں کہ اب آپ استفادہ فرمائیے۔
ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے
بات یہاں تک محدود نہیں تھی۔ نوجوانوں کے لیے انکا رویہ شفقت آمیز رہا۔ حتیٰ کہ اگر ان کے پاس کوئی نوآموز لڑکا بھی اپنی لکھی تحریر لے کر سناتا تو اسکی اصلاح کرتے وقت بھی اسے کمتری کا احساس نہ ہونے دیتے۔
ریحان اعظمی کی شخصیت پر ایک نظر
ردیف و قافیہ کے ہم وزن ہونے کو جتنی آسان عملی مثال سے سمجھاتے، شاید ہی کسی استاد میں یہ صلاحیت ہو۔
مجھ جیسوں کو وہ ایک مصرعہ لکھ کر دیتے کہ اب اس پر کلام لکھو۔ اور یوں وہ ایک شخصیت نہیں بلکہ اپنی ذات میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے۔
بہت اچھے انسان۔ ملنسار!۔
کوئی شخص انکے لیے اجنبی نہیں تھا۔ وہ سب کے لیے انکے اپنے ریحان بھائی تھے۔ ہنس مکھ شاعر و ادیب و صحافی و معلم اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بہت اچھے انسان۔ ملنسار!۔
دیگر ادبی شخصیات اور ریحان اعظمی میں فرق
دیگر ادبی شخصیات اور ریحان اعظمی میں جو سب سے بڑا فرق ہے وہ یہ کہ وہ عوام کے لیے ہمہ وقت خندہ پیشانی کے ساتھ گھلنے ملنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کیا کرتے تھے۔ قدرت نے انہیں اتنی شہرت اسی لیے عطا کی کہ ریحان اعظمی میں مشہور بڑی شخصیات والی رعونت کا شائبہ تک نہ تھا۔
نوحہ و سلام و مرثیہ کو حیات نو بخشنے والا
اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو ادب میں نوحہ و سلام و مرثیہ کو حیات نو بخشنے میں ڈاکٹر ریحان اعظمی نے جو کردار ادا کیا ہے، ماضی میں اسکی نظیر نہیں ملتی۔ اردو نوحہ کی دنیا میں پہچان ہے تو اس میں ایک بہت بڑا حصہ ریحان اعظمی کا ہے۔ مانا کہ اعظم گڑھ کے کیفی اعظمی اردو ادب میں بہت بڑا نام ہیں لیکن یہ کیفی صاحب کے مداحوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا میں جو شہرت ریحان اعظمی کے حصے میں آئی، وہ کیفی اعظمی صاحب سمیت کسی کو بھی نہ ملی۔
عالمی سطح کی شہرت
جس نے انکی شاعری پر تکیہ کیا اس کو بھی اللہ نے عالمی سطح کی شہرت عطاکی۔ خواہ وہ نوحہ خواں سید ندیم رضا سرور ہوں یا سید ناصر حسین زیدی۔ حتیٰ کہ صرف نوحہ و مرثیہ و سلام ہی نہیں۔ بلکہ انکی غزلوں کو نغموں کی صورت میں گانے والے گلوکار حسن جہانگیر کی شہرت کاسبب بھی ریحان اعظمی کی شاعری ہے۔
ریحان اعظمی کی رحلت نے سوگ میں مبتلا کردیا
یقینا سید ریحان عباس رضوی عرف ڈاکٹر ریحان اعظمی کی رحلت نے مجھ سمیت انکے مداحوں کو سوگ میں مبتلا کردیا ہے۔ لیکن یہ اللہ کا حتمی و اٹل قانون ہے: کل نفس ذائقۃ الموت۔ انا للہ و اناالیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ کے معصوم اولیاء سے عقیدت و محبت ریحان اعظمی کے لیے ایک ایسا سرمایہ ہے کہ جو اب انہیں دارالبقاء میں بہت کام آئے گا۔
ریحان بھائی کی جاں سوز رحلت نے اردو ادب کے شعبہ نوحہ و مرثیہ و سلام میں جو خلا چھوڑا ہے، اسے پر کرنے کے لیے ریحان بھائی جیسے ہنس مکھ آدمی کی ضرورت ہے۔