مضامین

شیطانی فطرت اور میکرون کی حقیقت

شیعہ نیوز:انسان اپنی زندگی میں لفظ فطرت بار بار سنتا ہے۔ لفظ فطرت ہر اس شئے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، جو اس جہان فانی میں موجود ہے۔ تمام اشیاء چاہے وہ انسان ہوں یا حیوان حتیٰ کہ جمادات و نباتات میں بھی فطرت پائی جاتی ہے۔ خالق اشیاء نے ان اشیاء کے درمیان کچھ خصوصیات رکھی ہیں، جو ان میں فرق کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ان چیزوں میں خصوصیات نہ ہوں تو انسان و حیوان کے درمیان کوئی فرق نہیں رہتا۔ مثلاً جمادات کا حرکت نہ کرنا ان کی خصوصیت ہے، جس سے ہم جمادات و حیوانات میں فرق محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح انسان اور جانور میں کچھ خصوصیات ہیں۔ خالق کائنات نے انسان کے اندر عقل رکھی اور اسی عقل سے انسان و جانور میں فرق محسوس ہوتا ہے۔ اب کوئی بھی انسان جو دنیا کے کسی بھی کونے میں رہتا ہو، کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، اگر وہ عقل کو استمعال میں لائے گا تو تمام کی تمام صفات کمال عقل اس کے اندر جلوہ گر ہوں گی، جسے ہم انسانیت کہتے ہیں، لیکن اس کے برعکس اگر ہم نفسانی خواہشات کے غلام بن جائیں گے، وہ کہیں گے جو نفس چاہتا ہے تو جانور ٹھہریں گے بلکہ جانور سے بھی بدتر، کیونکہ جانور میں عقل نہیں جس سے وہ سوچے اور فکر کرے جبکہ انسان میں عقل و فکر ہے۔

اسی طرح فرانس میں رہنے والا پست فطرت شیطان کہ جسے جانوروں سے بدتر کہیں تو بھی کم ہے، کیونکہ اس نے ہر چیز کو آزادی اظہار رائے کا نام دیا ہے کہ جس کی عقل مخالفت کرتی ہے۔ فرانس کے ہفتہ وار اخبار "چارلی ایبڈو” میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں کے مقابلے میں ہر صاحب عقل نے اس شیطانی عمل کی سخت الفاظ میں مذمت کی، جبکہ فرانس کے صدر اور کابینہ نے اسے آزادی اظہار رائے کا نام دے کر اس شیطانی عمل کی تعریف و حمایت کی اور ان کے حوصلے بڑھائے۔ اگر ہم خود میکرون کی زندگی کا مطالعہ کریں تو بہت سارے شواہد مل جائیں گے کہ جس میں شیطانیت واضح نظر آتی ہے۔ سن 1993ء کا واقع ہے کہ میکرون نے سیکنڈری سکول میں اپنی چالیس سالہ ٹیچر کے ساتھ ناجائز تعلقات رکھے، جو خود تین بچوں کی ماں تھی اور یہ بدکار اس کے دو بچوں سے بھی چھوٹا تھا۔ جب اس چالیس سالہ ٹیچر اور سکول کی انتظامیہ کو اس معاملے کا علم ہوا تو کافی معاملہ بگڑ گیا، یہاں تک کہ چالیس سالہ ٹیچر کو اپنا ادارہ چھوڑنا پڑا۔ اس کے ساتھ ہی بدکار شاگرد کو بھی ادارے نے بے دخل کر دیا۔ لیکن پھر بھی اگلے تیرہ برسوں تک میکرون اور اس کی ٹیچر جسمانی تعلقات میں رہے اور بدکاری کرتے رہے۔

نتیجتاً سال 2006ء میں اس ٹیچر کو اس کے شوہر نے طلاق دے دی اور اگلے ہی سال اس ٹیچر نے اپنے بدکار شاگرد کے ساتھ شادی کرلی اور یوں اس بدکار میکرون نے اپنی ماں کی ہم عمر شادی شدہ ٹیچر (جو کہ روحانی طور پر اس کی ماں تھی) سے مسلسل زنا کرکے سیاہ روئی، خباثت اور بدطینتی کی تاریخ رقم کی اور اب یہ بدکار شاگرد فرانس کا صدر بنا بیٹھا ہے۔ کئی سال پہلے یہ بدکار شاگرد کہتا ہے کہ تمہارا اسلام شدت پسندی کا شکار ہے اور اب اس کی اتنی جرأت کہ وہ معلم انسانیت صلی الله عليہ وآلہ وسلم کے خلاف خاکے نشر کرواتا ہے، جنہوں نے پوری انسانیت کو انسانیت کے آداب سکھائے، جنہوں نے ماں باپ بہن بھائی کی پہچان کروائی، جنہوں نے انسان کی عزت کرنا سکھائی، جنہوں نے ظلم، قتل و غارت اور نسل پرستی کے خلاف قیام کیا۔

جی ہاں! انسانیت کے نزدیک رسول اکرم صلی الله عليہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ نہایت قابل احترام ہے کہ اس ذات مبارکہ نے حیوانیت اور شیطانیت کے خلاف قیام کیا۔ آج اگر میکرون جیسے اس ذات کے خلاف کھڑے ہوگئے ہیں تو حقیقت میں انسانیت کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ یہ چاہتے ہیں کہ انسانیت ختم ہو جائے اور اس کی جگہ حیوانیت و درندگی آجائے کہ جس میں انسان اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ ہو جائے جبکہ رسول اکرم (ص) کی سیرت مبارکہ نے ہی میکرون جیسے درندوں کا راستہ روکا ہے۔ صیہونی طاقتوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ رسول اکرم (ص) کی ذات مبارکہ ہے، پس اسی وجہ سے آج یہ لوگ رسول اکرم (ص) کی ذات کے خلاف کھڑے ہیں اور اسے اظہار رائے کی آزادی کا نام دیتے ہیں۔

علامہ اقبال (رہ) نے ان جیسے پست فطرت اور احمق انسانوں کے بارے 100 سال پہلے کہا تھا۔
آزادی افکار سے ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہو فکر اگر خام تو آزادی آفکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ
چونکہ میکرون جیسے پڑھے لکھے جاہل انسانوں کی فکر خام ہے، اس لئے ان کی آزادی اظہار اصل میں ان کی حیوانیت عیاں کرتی ہے۔ میکرون کا نظریہ شیطان کے رسمی عقائد سے میل کھاتا ہے۔ اس کی شخصیت خواہ کتنی ہی اہم ہو، پھر بھی شیطان جن رجحانات کا مظہر ہے، اگر انسان بھی ان رجحانات کا مطیع ہو جائے تو نتیجہ ابدی انتشار، نسل پرستی، ظلم اور قتل و غارت کے سواء کچھ بھی نہیں نکلے گا۔

تحریر: شاہد عباس ہادی

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button