
سعودی عرب کی لبنان کے سفارتی بائیکاٹ کی مہم
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
دنیا میں سفارتی تعلقات کو انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے، یہاں تک کہ دشمن ممالک میں بھی سفارتخانے قائم کیے جاتے ہیں اور ہر ملک اپنے ہاں قائم سفارتخانوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے اور ان کا احترام قائم رکھتا ہے۔ وطن عزیز اور ہندوستان کے درمیان تعلقات اچھے نہیں ہیں، پہلے دن سے ہندوستانی استعمار پاکستان کے وجود کے خلاف ہے، اس سب کے باوجود ہندوستان میں ہمارا سفارتخانہ قائم ہے اور ہندوستانی حکومت کے ساتھ روابط کو انجام دیتا ہے۔ اسی کے ذریعے وہاں سے لوگوں کو ویزہ جاری کیا جاتا ہے اور اسی کے ذریعے ہندوستان میں پاکستانی مفادات کی نگرانی کی جاتی ہے۔ سفارتی تعلقات اس لیے بھی اہم ہوتے ہیں کہ ان کے نہ ہونے کی صورت میں محض افواہوں اور غلط فہمیوں پر بڑے نقصانات ہو جاتے ہیں۔
مشہور واقعہ ہے کہ جب امریکہ اور روس کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی، ایک امریکی صدر نے اپنے زعم میں ریڈیو پر خطاب شروع ہونے سے پہلے یا بعد میں یہ کہہ دیا کہ میں نے اپنی افواج کو روس پر ایٹمی حملے کا حکم دے دیا ہے۔ سیکنڈز میں یہ بات روسیوں تک پہنچ گئی، اب روس بھی ایٹمی طاقت تھا اور اپنے بچاو میں الاسکا سے امریکہ پر ایٹمی حملہ کرسکتا تھا۔ یہ ایسی صورتحال تھی، جس سے دنیا کا نقشہ ہی بدل سکتا تھا، جیسے ہی امریکی انتظامیہ کو احساس ہوا کہ یہ واقعہ ہوگیا ہے تو انہوں نے فوراً ہاٹ لائن پر رابطہ کیا اور روسی انتظامیہ کو بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہے، امریکی صدر نے مزاحاً وہ بات کی ہے۔ فرض کریں کہ امریکہ اور روس کا سفارتی رابطہ نہ ہوتا تو دنیا کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا تھا۔ اسی طرح یہ طے تھا کہ انڈیا پاکستان پر حملہ کرنے والا ہے، جنرل ضیاء الحق میچ دیکھنے کے لیے انڈیا پہنچ گئے اور انڈین وزیراعظم کے کان میں بتا دیا کہ ہم ایٹمی طاقت ہیں، اس ایک بات نے جنگ روک دی۔
سعودی حکومت کی پچھلے کچھ عرصے سے پالیسی سفارتی تعلقات کے خاتمے کی رہی ہے۔ آپ دیکھ لیں، ایک احتجاجی مظاہرے کی بنیاد پر انہوں نے نے اسلامی جمہوریہ ایران سے تعلقات کا خاتمہ کر لیا، حالانکہ یہ مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ افغانستان میں پاکستانی کونسل خانوں کے سامنے کئی بار مظاہرے ہوئے اور بعض میں تو کونسل خانہ کو نقصان بھی پہنچا، مگر ہم نے یہ جانتے ہوئے بھی تعلقات ختم نہیں کئے کہ ان مظاہروں میں افغان حکومت شریک ہے۔ سعودی عرب کو غور کرنا چاہیئے کہ کیا ایران سے تعلقات ختم کرنے سے ایران میں اس کے مفادات کو فائدہ پہنچایا یا نقصان پہنچایا؟ باہمی تعلقات میں جو کام نہیں کیے جا سکتے، تعلقات نہ ہونے پر ان سے کسی کو روکا نہیں جا سکتا۔ سعودیہ اور قطر کے درمیان تعلقات خراب ہوئے، سعودیہ نے ان اختلافات کی بنیاد پر قطر سے نہ صرف سفارتی تعلقات ختم کیے بلکہ ان کی معاشی ناکہ بندی کر دی اور صحرا میں چرنے والے اونٹ تک واپس ہنکا دیئے گئے۔ مگر ہوا کیا؟ دو تین سال کے بعد خود سے تعلقات کو معمول پر واپس لانے کا اعلان کر دیا گیا۔
اب لبنان کے سفارتی بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے اور اس میں لبنانی وزیر اطلاعات کے وزیر بننے سے پہلے کے بیان کو بنیاد بنایا گیا ہے، جس میں وہ یمن میں سعودی جنگ کی مذمت کر رہے ہیں۔ سفیر واپس بلا لیا گیا اور یمن کی معاشی مجبوریوں کی وجہ سے لبنان کی قومی خود مختاری پر سمجھوتے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ کسی بھی ملک کے لیے قابل قبول نہیں ہوسکتا، مجھے لگتا ہے کہ سعودی حکومت آزادی اظہار کے اپنے ملک کے پیمانے دنیا کے دیگر ممالک پر لاگو کرنا چاہتی ہے، جس میں اس کے خلاف کوئی بات نہیں کی جا سکتی اور اس کے لیے سب سے بڑا ہتھیار مالی زک پہنچانا ہے۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان صاحب صرف ملائیشیا میں ایک کانفرنس میں شریک ہونا چاہتے تھے، مگر ایسا دباو ڈالا گیا کہ وہ سعودیہ پہنچ گئے اور خواہش کے باوجود ملائیشیا نہ جا سکے۔ ہر جگہ سفارتی مقاطعہ کی پالیسی کامیاب نہیں ہوتی بلکہ مقاطعہ کرنے والے خود نقصان اٹھاتے ہیں۔ اس لیے سعودی عرب کو طاقت اور پیسے کی بجائے باہمی احترام کی بنیاد پر تعلقات کو استوار کرنا ہوگا، کہیں ایسا نہ ہو کہ سعودی عرب خطے میں تنہا رہ جائے۔
سعودی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم لبنان کو موجود نظام سے نکالنا چاہتے ہیں، جس پر حزب اللہ کا تسلط ہے۔ کیا سعودی وزیر خارجہ یہ قبول کریں گے کہ کوئی ملک یہ کہے کہ ہم سعودی عرب کو آل سعود کے تسلط سے نکالنا چاہتے ہیں؟ یقیناً اسے دوسرے ممالک کی مداخلت سمجھا جائے گا تو سعودی وزیر خارجہ کس طرح ایک خود مختار ملک کے نظام کے خلاف بات کر رہے ہیں، جس کی بنیاد دنیا کے تسلیم شدہ جمہوری نظام پر ہے؟ سعودی عرب چھوٹے اور کمزور ممالک کے داخلی نظام میں دخالت اپنا حق سمجھتا ہے اور یہیں سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لبنان پچھلے دو سال سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ہے اور اب اس کے اثرات ان کی معیشت پر بھی ہونے لگیں ہیں، جس کا نتیجہ بے تحاشہ مہنگائی کی صورت میں نکلا ہے۔ اس سب کے باوجود لبنان کے غیور عوام اپنے حقوق پر سودے بازی کے لیے تیار نہیں ہیں۔ کچھ خبریں آرہی ہیں کہ فرانس سے ملکر نظام کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اس کا نتیجہ بھی آ جائے گا۔ حکومت تبدیل کرنے کی بجائے اقوام کی قائم کردہ حکومت کے ساتھ بہتر انداز میں کام کرنے کی روایت ہی آپ کو خطے میں طاقتور کرسکتی ہے۔
ریاض کے بائیکاٹ کا سنتے ہی بحرین اور متحدہ عرب امارات نے بھی لبنان کا بائیکاٹ کر دیا۔ ان ممالک کی اپنی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے، یہ سعودیہ کے پیچھے چلتے ہیں، جہاں جیسے وہ کہتا ہے، ویسے ہی انجام دیتے ہیں۔ ویسے جہاں جہاں بادشاہت ہوتی ہے، وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ قوم کی بجائے چند لوگ مل کر فیصلے کرتے ہیں، کیونکہ وہ جوابدہ نہیں ہوتے۔ اس لیے شدید نقصان بھی ہو جائے تو بھی ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ملک کی خارجہ پالیسی آزاد ہونی چاہیئے۔ صرف اطاعت پر مبنی خارجہ پالیسی تو طفیلی ریاست کی عکاس ہوتی ہے۔ مسلمان ممالک کے درمیان چھوٹے چھوٹے مسائل لے کر لڑائی جھگڑے مناسب نہیں ہیں۔ ایک دوسرے کو مناسب مقام دینا ہوگا، کمزور یا چھوٹا دیکھ کر اس پر چڑھائی نہیں کرنا ہوگی اور وہ ملک جس نے اسرائیل کو کئی جنگوں میں شکست دی ہو، وہ کمزور تو خیر نہیں ہوسکتا۔