انٹرویوہفتہ کی اہم خبریں

یمن کی بجائے سعودیہ اور امارات سے جارحیت روکنے کا مطالبہ کیا جانا چاہیئے

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) علامہ سید عابد حسین الحسینی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ پاکستان میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ یمن جنگ اور اس پر ہونیوالی تازہ جارحیت کے حوالے سے ایک خصوصی انٹرویوقارئین کی پیش خدمت ہے۔

سوال: عرب اتحادیوں کیجانب سے یمن پر کی جانیوالی بمباری اور جواباً یمنی فورسز کیجانب سے امارات پر ہونیوالے حملے کا موازنہ آپ کس طرح کرینگے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: بسم اللہ الرحمن الرحیم، یمن پر ہونے والی یہ کوئی پہلی جارحیت نہیں، عرب اتحاد کی جانب سے اس پر ساڑھے چھ سال سے ہزاروں خونی حملے ہوچکے ہیں، جبکہ یمن نہ ہونے کے برابر اپنے محدود وسائل سے انکے ہزار بموں کے مقابلے میں کوئی ایک آدھ حملہ کرتا ہے۔ تو اس کا موازنہ کسی صورت میں نہیں کیا جاسکتا ہے۔ ہاں یہ ایک حقیقت ہے کہ یمن کا ایک بم ان کے ہزار بموں پر بھاری ہوتا ہے، وہ یوں کہ یمنیوں کے مقابلے میں ان کے حوصلے نہایت پست ہیں، یوں عرب اتحادی یمن کے ایک ہی حملے کی تاب بھی نہیں لاسکتے۔ ان کے خوف کا یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ اپنے لئے اپنے علاقے کو غیر محفوظ تصور کرتے ہوئے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں کوئی سکون اور چین نہیں پایا جاتا۔

سوال: اقوام متحدہ کیجانب سے یمن کو حملے بند کرنے کا مطالبہ آپکی نظر میں کیسا لگتا ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: یہ کوئی اقوام متحدہ نہیں، بلکہ یہ یہودیوں کا ایک وفادار ادارہ ہے۔ یمن پر ہونے والی جارحیت اور ان کی نسل کشی کے حوالے سے یہ بات تک نہیں کرسکتا۔ اسے تو شرم سے ڈوب مرنا چاہیئے۔ یمن میں ایک ہی دن میں ہزاروں بچے بھوک پیاس سے مر رہے ہیں۔ سینکڑوں بچے وسائل کی کمی، علاج کی سہولیات کی عدم دستیابی سے جبکہ روزانہ بیسیوں بچے جارحین کی بمباری سے مر رہے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ کو کوئی احساس ہی نہیں ہو رہا۔ اقوام متحدہ کو اقوام متحدہ کہنے کی بجائے اقوام ملحدہ کہنا چاہیئے۔

سوال: ابوظہبی پر ہونیوالے حملے پر اکثر مسلم ممالک بشمول پاکستان مذمت کر رہے ہیں، آپکا کیا خیال ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: ان مسلم ممالک کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ اسرائیل اور امریکہ کے پٹھو ہیں۔ عمران خان کی اقوام متحدہ میں پہلی تقریر سن کر ہمیں کافی امید اور بہت خوشی ہوئی تھی اور لگا کہ یہ پاکستان کا واحد آزاد سربراہ مملکت ہے، کسی کے دباؤ میں نہیں آرہا۔ مگر آہستہ آہستہ قرض کی تیز لٹکتی تلوار نے اس کے اصل ایمان کو آشکار کر دیا۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ جن ممالک سے اس کے مفادات وابستہ ہیں اور جن کا یہ مقروض ہے، ان کے کرتوتوں پر اس نے چپ سادھ لی ہے، یہی نہیں، بلکہ وہ انکے جرائم کی تائید بھی کرتا ہے، جو کہ قابل مذمت ہے، عرب ممالک نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر لئے ہیں، امارات نے تو تمام حدیں پار کر دی ہیں، انہوں نے پانچ ہزار اسرائیلیوں کو نیشنیلٹی دی، جبکہ یمن کے علاقے میں اسرائیلیوں کو لے جا کر آزادی سے پھیرانے پر شرم بھی نہیں کرتا، چھ سالوں سے یمنیوں کے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر نہیں تھکتا، یمن نے چھ سالوں میں صرف ایک ہی حملہ کیا اور صرف 3 لوگ مارے۔ دنیا سے یہ تو ہضم نہیں ہو رہا، جبکہ یمن کی ہزاروں خواتین، بچوں اور دیگر مظلوموں کی لاشوں کے ڈھیر دنیا کو دکھائی نہیں دے رہے۔ عمران خان پر افسوس ہے کہ وہ یمن میں ہونے والے ظلم کی بجائے امارات پر ہونے والے معمولی حملے کو ہائی لائٹ کرتا ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں گستاخِ مولا علیؑ مفتی طارق مسعودکو گرفتار کرو، پاکستانی قوم کا مطالبہ

سوال: امارات تو ایک عرصہ ہوا جنگ سے الگ ہوچکا ہے، تو اس صورت میں یمن کا حملہ جارحیت کے زمرے میں نہیں آتا۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: الفاظ کی حد تک وہ جنگ سے نکل چکا ہے، مگر اصل میں یمن کی تباہی میں سعودی عرب سے کچھ زیادہ کردار امارات کا ہے۔ یمنیوں نے امارات کے جنگ سے الگ ہونے کے اعلان پر انہیں جنگ سے خارج تصور کیا، تاہم کچھ عرصہ قبل دوبئی کا جہاز پکڑنے پر یہ ہنگامہ پھوٹ پڑا، کیونکہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے جہاز میں موجود جنگی ساز و سامان نے ان کا بھانڈہ پھوڑ دیا۔ چنانچہ اس کے بعد ان کا کوئی بھی بہانہ قابل قبول نہ رہا۔

سوال: یمن جنگ کا نتیجہ کس کے حق میں رہیگا، یمنیوں کے حق میں یا عرب اتحاد کے حق میں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: میرے خیال میں تو اس جنگ کا نتیجہ ان میں سے کسی کے حق میں نہیں، بلکہ کافی حد تک یہ نتیجہ اسرائیل، یورپ اور امریکہ کے حق میں رہا ہے، کیونکہ اس جنگ کی وجہ سے امریکہ اور یورپ نیز اسرائیل کا اربوں ڈالر کا اسلحہ بک گیا۔ اسرائیل نے عربوں کے اندر پہلے سے گاڑے اپنے پنجوں کو مزید مستحکم کرتے ہوئے، متعدد عرب ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کر لئے۔ تاہم اس کے باوجود سعودی عرب کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔ عالمی سطح پر خصوصاً مسلم عوام میں اس کی سبکی ہوئی۔ اربوں ڈالر کا سرپلس سرمایہ ہاتھ سے دینا پڑا۔ سعودی عرب کا اس جنگ پر ہزاروں ارب ڈالر کا خرچہ ہوا۔ اس کے علاوہ آرامکو اور دیگر اہم اسٹریٹیجیک مقامات پر ہونے والی بمباری نے اس کی کمر کو توڑ کر رکھ دیا۔

سوال: حالیہ بمباری پر دنیا کو کیا پیغام دینا پسند کرینگے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی: یمن پر ہونے والی بمباری کے حوالے سے اتنا ہی کہوں گا کہ اس بلکہ اس سے پہلے تمام خونی بمباریوں نے انسانوں کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں اور آج کے بعد مسلمانوں کے پاس فلسطین، کشمیر یا کسی بھی ملک میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف احتجاج کرنے کا حق اخلاقاً نہیں رہا ہے۔ ہم کس منہ سے اسرائیلیوں اور ہندؤوں کی جارحیت کو جارحیت کہہ سکیں گے، جبکہ ایک مقدس اسلامی سرزمین سے ایک غریب اور وسائل سے محروم ملک یمن کے خلاف جارحیتوں کا ایک سلسلہ جاری ہے۔ چنانچہ مسلمان ممالک کے پاس اب یہ آپشن ہی ختم ہوچکا ہے کہ مستقبل میں وہ کسی جارح کی جارحیت کی مذمت کرسکیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button