مشرق وسطی

غزہ میں اسکول اسرائیلی بربریت کا شکار، 2 مزيد اسکولوں پر بھیانک حملہ

شیعہ نیوز: غزہ پٹی کے خلاف جنگ کے مذموم اہداف کو 10 ماہ گزرنے کے بعد بھی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہونے والی اسرائیلی فوج نے فلسطینی مزاحمت کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کے لیے اسکولوں میں پناہ لینے والے شہریوں کو قتل کرنا شروع کر دیا ہے۔

فلسطینی ذرائع ابلاغ نے اس سلسلے ميں اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی فوج نے اپنے تازہ ترین جرم میں غزہ شہر کے مغرب میں دو اسکولوں "النصر” اور "حسن سلامہ” کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔

رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں کم از کم 30 شہید اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں اور شہداء کی تعداد میں اضافے کا بھی خدشہ ہے۔

اس سلسلے میں غزہ میں شہری دفاع کے ترجمان "محمود بصل ” نے بتایا ہے کہ "غزہ شہر کی صورت حال سخت اور افسوسناک ہے اور النصر اور حسن سلامہ اسکولوں میں شہید اور زخمی ہونے والوں میں 80 فیصد بچے ہیں۔ ”

یہ بھی پڑھیں : ممکنہ ایرانی حملے کا خوف، نیتن یاہو زیر زمین پناہ لینے پر مجبور، صہیونی میڈیا

انہوں نے کہا: غزہ شہر میں اب کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے اور غاصب صیہونی حکومت کسی اصول کا احترام نہیں کرتی۔

بصل نے مزید کہا: غاصب صیہونی حکومت فلسطینیوں کو اپنی ان کارروائيوں سے یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ان کے لئے غزہ چھوڑنا اب ضروری ہے اور اسی لئے وہ غزہ پٹی میں خواتین اور بچوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنا رہی ہے تاکہ غزہ کے اسپتالوں میں صیہونیوں کے جرائم کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہ رہے۔

اس جرم کے بعد غزہ پٹی میں سرکاری ذرائع نے بھی اعلان کیا کہ غزہ کی پٹی میں جنگ کے آغاز سے اب تک غاصب اسرائیلی فوج کی جانب سے پناہ گزینوں کی 172 پناہ گاہوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

سرکاری ذرائع نے یہ بھی اطلاع دی کہ غزہ پٹی میں صیہونی جنگ کے آغاز سے اب تک اسکولوں پر حملوں کے دوران 1400 افراد شہید ہو چکے ہیں

گذشتہ چند دنوں کے دوران صہیونی فوج نے غزہ پٹی کے مختلف علاقوں میں متعدد اسکولوں کو نشانہ بنایا جہاں فلسطینی پناہ گزیں ، پناہ لئے ہوئے تھے جن میں درجنوں فلسطینی شہید ہوئے جن میں اکثر خواتین اور بچے تھے۔

در ايں اثنا فلسطین کی وزارت صحت نے غزہ پٹی میں صیہونی حکومت کے جرائم کے نتیجے میں شہداء اور زخمیوں کے تازہ ترین اعدادوشمار بھی شائع کیے اور اعلان کیا کہ الاقصیٰ طوفان آپریشن کے آغاز سے اب تک اس علاقے میں 39 ہزار 500 سے زائد لوگ شہید ہو چکے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button