فرقہ واریت کے خلاف جنگ ناگزیر
تحریر:بدر اقبال چوہدری
بشکریہ : ڈان نیوز
شیعہ نیوز: اگست کا مہینہ ختم ہوتے ہوتے 2 لاکھ سے زیادہ لوگ دولت اسلامیہ عراق و شام (آئی ایس آئی ایس) نامی تنظیم کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے تھے۔ اس تنظیم کی جانب سے یہ قتل و غارتگری پچھلے چار سالوں سے جاری ہے۔
ہلاکتیں بلاتفریق تھیں، اور جیسا کہ جنگوں میں ہوتا ہی ہے، بچوں اور عورتوں کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ قتل انتہائی وحشتناک تھے، جن میں سے کئی کیسز میں تو سروں کو جسموں سے الگ کر کے سلاخوں پر لگا کر ٹرافیوں کی طرح نمائش کی گئی۔ طریقہ واردات میں روایتی ٹارگٹ کلنگ سے لے کر روڈ کنارے بم (آئی ای ڈی) شامل رہے۔
کسی اور جگہ، کسی اور دن، اس خبر نے 25 لاکھ لوگوں کی لبنان، ترکی، اور اردن کی جانب ہجرت کی خبر کے ساتھ مل کر تہلکہ مچا دیا ہوتا۔
لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے متقی لوگوں اور اس کی میڈیا کے پاس ابھی سر کھپانے کے لیے دوسرے بہت سے مسائل ہیں۔
پاکستان میں قتل ہونے والے شیعہ مسلمانوں کے لوگوں کی تعداد اسرائیل کے ہاتھوں مرنے والے غزہ کے شہریوں سے تقریباً سو گنا زیادہ ہے۔ لیکن ہم جانے انجانے میں اس بات کو نظر انداز کرتے ہیں، کہ مرنے والوں کا تعلق ایک مخصوص فرقے سے ہے۔
مثال کے طور پر، فرقہ وارانہ ذہنیت جس نے ملک کی اکثریت کے دماغوں کو زہریلا کر رکھا ہے، کیا یہ ایک پریشان کن بات نہیں جس کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت پیش آئے؟
پاکستان میں شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو ٹارگٹ کرنے کے لیے کتنی چھوٹی چھوٹی باتوں کو وجہ بنایا جاسکتا ہے، اس کی مثال یہ ہے، کہ ایک دفعہ 80 کی دہائی کے اواخر میں شیعہ مسلمانوں پر صرف اس لیے حملہ کیا گیا تھا، کہ انہوں نے چاند دیکھنے کے مسئلے میں اختلاف کیا تھا۔ حملوں کے نتیجے میں کئی افراد ہلاک ہوئے، اور معصوم لوگوں کی عید کا جنازہ نکال دیا گیا۔
ان حملوں کی بربریت، اور حملہ آوروں کی وحشی ذہنیت کا اندازہ لگانا چاہیں، تو ایک دفعہ ایک پوری فیملی کو رسیوں سے باندھ کر باری باری ایک ایک کے سر میں باقیوں کے سامنے گولیاں ماری گئیں۔ ایک اور واقعے میں ایک باپ اور بیٹے کو اتنی دفعہ خنجر مارے گئے، کہ گننے کے لیے 10 سے زیادہ انگلیوں کی ضرورت پڑی۔
ٹارگٹ ہونے والے لوگوں کی بات کریں، تو ایک ایڈیشنل سیشن جج سے لے کر ایک معروف پروفیسر عطاءالرحمان، اور کوئٹہ میں زیر تربیت پولیس اہلکار، سب ہی اس میں شامل ہیں۔
پڑھے لکھے اور ان پڑھ، غریب اور امیر، نوجوانوں اور بوڑھوں، سب ہی کو بلا تفریق نشانہ بنایا گیا، اور نشانہ بنانے کی وجہ کیا تھی؟ صرف ان کے مذہبی عقائد۔
لیکن اس سب کے باوجود ہم شتر مرغ کی طرح اپنے سر ریت میں دبا لیتے ہیں، اور اس مسئلے پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ یہ مسائل آہستہ آہستہ ہماری قوم کے وجود اور ملک کے نظریے پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا رہے ہیں، لیکن ہم صرف ایک کام اچھے طریقے سے کر سکتے ہیں، اور وہ ہے دوسروں پر انگلیاں اٹھانا۔
ذرا اس اشو پر بحث شروع تو کر کے دیکھیں بھئی۔
اور ساتھ ہی سازش کی تھیوریاں پیش ہونے لگیں گی۔ ہم اپنے پڑوسیوں کو، مغرب کو، مریخ پر رہنے والی مخلوق کو، جن بھوتوں کو، سب کو الزام دیں گے، لیکن اپنے رویوں کو دیکھنا ہمیں نہیں آتا۔
اور فطری طور پر جیسے ہی فرقہ واریت کا سوال اٹھایا جائے، تو تنقید کرنے والے اپنی تنقید کا رخ مذہبی رہنماؤں کی جانب موڑ دیتے ہیں، اور یہ بلاوجہ بھی نہیں ہے۔ وہ لوگ جو اس توجہ طلب مسئلے پر رہنمائی کر سکتے تھے، مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ہر گزرتے لمحے کے ساتھ یہ شیطانی کھیل پیچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ اس میں اتنی بڑی تعداد میں لوگ شامل ہورہے ہیں، کہ اب اسے روکنا ناممکن سا لگنے لگا ہے۔
اگر شیطان سے لڑنے کی ضرورت ہے، تو وہ ابھی ہے، فرقہ وارانہ فسادات سے نمٹنے کی ضرورت ہے، ان کی مذمت کرنے کی ضرورت ہے۔
آخر ہم اتنے اہم مسئلے کو کیسے مذہبی رہنماؤں پر چھوڑ سکتے ہیں، جو اس کا رخ اپنے مفادات کے لیے کہیں بھی موڑ سکتے ہیں۔
ہمیں ایک اجتماعی تحریک شروع کرنی ہوگی، جس میں ریاست کے تمام سیاسی و سماجی حلقے شامل ہوں، اور اسے نامور لوگوں کی پشت پناہی حاصل ہو۔
جب پورا ملک ہی فرقہ واریت کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا، اور جب سب لوگ مل کر انتہائی صبر کے ساتھ ہمیں تقسیم کرنے والے مسائل کو ختم کرنے کی ٹھان لیں گے، تو ایک وقت آئے گا کہ فرقہ وارانہ حملے ختم ہوں گے۔
یاد رکھیں، آج تک کبھی بھی ایسا نہیں ہوا، کہ آنکھیں بند کرلینے سے کبوتر کی جان بچ گئی ہو۔ ہاں اتنا ضرور ہوا ہے کہ بلی کو حملہ کرنے میں زیادہ آسانی ہوئی ہوگی۔