مضامینہفتہ کی اہم خبریں

شہید قاسم سلیمانی کے قاتلوں پر خوف کا سایہ

تحریر: محمد رضا مرادی

دو منٹ سے بھی کم مدت کی اینیمیشن "انتقام یقینی ہے” کی اشاعت امریکی حکام کے شدید غصے اور ردعمل کا باعث بن گئی ہے۔ یہ اینیمیشن "ہیرو” نامی عوامی مہم کے دوران سامنے آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے معروف ہو گئی۔ اس میں شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کے ناطے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی ٹیم کے خلاف انتقامی کاروائی کی منظرکشی کی گئی ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ چند دیگر افراد کے ہمراہ اپنے مخصوص گالف کلب میں گالف کھیلنے میں مصروف ہیں اور ایک چار ٹائروں والا روبوٹ ان کی تصاویر اپنے مرکز کی جانب ارسال کرتا ہے۔ آخر میں کنٹرول روم سے ڈونلڈ ٹرمپ کے ہمراہ افراد کا موبائل فون ہیک کر کے ایک پیغام بھیجا جاتا ہے جس میں لکھا ہوتا ہے: "سلیمانی کے قاتل اور سلیمانی کے قتل کا حکم دینے والوں کو شدید انتقام کا سامنا کرنا پڑے گا۔”

اس اینیمیشن کے بارے میں امریکی حکام کی جانب سے ردعمل کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا اور حتی امریکہ کے اراکین کانگریس نے اس اینیمیشن کی وجہ سے ایران سے جوہری مذاکرات روک دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے اس انیمیشن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: "یہ اس تخریب کاری کا حصہ ہے جو ایران نے خطے میں شروع کر رکھی ہے اور انہی دھمکیوں کا حصہ ہے جو وہ ہماری قومی سلامتی کے خلاف دیتے رہتے ہیں۔ ہم وزارت دفاع میں اس خطرے پر توجہ مرکوز کریں گے تاکہ یہ اس بارے میں کہ اپنا دفاع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، پورا یقین حاصل کر پائیں۔ ہم شام اور مشرق وسطی خطے میں ایران کی جانب سے دہشت گردی کی حمایت جاری رکھنے کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اسی طرح ایران عراق اور شام میں ان مسلح گروہوں کی مدد کر رہا ہے جو ہماری فورسز پر حملہ ور ہوتے رہتے ہیں۔”

سوال یہ ہے کہ امریکہ جو کسی ہچکچاہٹ کے بغیر دیگر ممالک کے شہریوں کو قتل کر دیتا ہے، ایک اینیمیشن پر کیوں اس قدر بھڑک اٹھا ہے اور ایران کے مقابلے میں فیصلہ کن ردعمل دکھانے کیلئے کوشاں ہے؟ اس کا جواب پانے کیلئے شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ اور اس کے ممکنہ انتقام کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
1)۔ سیاسی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ امریکی حکام تھے جنہوں نے شہید جنرل قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے دیگر ممالک کے حکومتی عہدیداروں کو قتل کرنے کی رسم کا آغاز کیا ہے اور اب خود اس خطرے سے روبرو ہو چکے ہیں۔ آج کے بعد امریکی حکام اپنے بیرون ملک دوروں اور دیگر آمدورفت کے دوران سکون کا سانس نہیں لے پائیں گے کیونکہ انہیں ہمیشہ انتقامی کاروائی کا خطرہ لاحق رہے گا اور ایک ہمیشگی خوف کا سایہ ان کے سر پر منڈلاتا رہے گا۔

2)۔ اخلاقی اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو اسلامی جمہوریہ ایران کو شہید قاسم سلیمانی کی دہشت گردانہ ٹارگٹ کلنگ کا انتقام لینے کا پورا حق حاصل ہے۔ دنیا کا ہر باضمیر اور منصف انسان نہ صرف ایران کو ایسی ممکنہ انتقامی کاروائی پر ملامت نہیں کرے گا بلکہ امریکی حکام سے انتقام کو ایک اخلاقی ضرورت قرار دیتا ہے۔ دنیا کی مختلف اقوام کے خلاف امریکہ کے مجرمانہ اقدامات بہت اچھی طرح اس ضرورت کو بیان کرتے ہیں۔ امریکی وزارت دفاع پینٹاگون کی حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فضائیہ نے گذشتہ بیس برس کے دوران مختلف ممالک کے شہریوں پر 3 لاکھ 37 ہزار بم اور میزائل برسائے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق امریکہ نے گذشتہ بیس برس میں روزانہ اوسطاً 46 فضائی حملے انجام دیے ہیں اور افغانستان، عراق، لیبیا، پاکستان، صومالیہ، شام اور یمن میں 93 ہزار فوجی کاروائیاں انجام دی ہیں۔

شاید اگر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے ممکن ہوتا کہ وہ جمعہ 3 جنوری 2020ء کی صبح میں واپس چلے جائیں تو ضرور شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کے فیصلے پر نظرثانی کرتے۔ وہ خود کئی بار اس بات کی جانب اشارہ کر چکے ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ میں انہیں استعمال کیا گیا ہے۔ شہید قاسم سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ کے دن امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز نے لکھا: "سلیمانی کی ٹارگٹ کلنگ امریکی صدر ٹرمپ کا سب سے بڑا جوا ہے۔ ٹرمپ جنرل سلیمانی کو قتل کر کے 2020ء کا صدارتی الیکشن جو بائیڈن کو تحفے میں دے چکے ہیں۔ ان کی جان کو بھی خطرہ ہے اور یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو اور صہیونی حکام نے ان سے ایسا کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔” درحقیقت ڈونلڈ ٹرمپ نے سیاسی طور پر انتہائی ناتجربہ کار ہونے کے باعث یہ اقدام انجام دیا تھا۔

ڈونلڈ ٹرمپ اس وقت شدید پیچیدہ اور خوفناک صورتحال سے روبرو ہیں۔ انہیں گذشتہ تیس برس سے سلمان رشدی کی خوف کی حالت میں خفیہ زندگی پر نظر ڈالنی چاہئے جس نے اسلام کی توہین کی اور ایسے انجام سے دوچار ہوا۔ سلمان رشدی گذشتہ تیس سال کے دوران کسی عوامی مقام پر دیکھا نہیں گیا اور بھاری سکیورٹی کے بغیر گھر سے باہر نکلنے کی جرات نہیں کرتا۔ شاید اس کی نظر میں موت ان تیس سالوں کے خوف اور وحشت سے کہیں زیادہ آسان دکھائی دیتی ہو گی۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ بھی جب ہر روز صبح سو کر اٹھتا ہے تو اسے چاہئے سب سے پہلے آسمان کی جانب دیکھے تاکہ محفوظ ہونے کی یقین دہانی کر سکے۔ اگرچہ ریاست فلوریڈا کے مغرب میں "پالم بیچ” نامی ڈونلڈ ٹرمپ کے مخصوص گالف کلب میں چھپے ہوئے قاتل روبوٹ کو ٹریس کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ لہذا انہیں ہر لمحہ کسی حادثے، بم، فائرنگ یا ڈرون حملے کا منتظر رہنا پڑے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button