ڈی آئی خان کا شیر، شہید سید عفیف عباس ایڈوکیٹ
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) آج سے تقریباً 18 سال قبل آج ہی کے روز بتاریخ 29 دسمبر 2004 کو ڈیرہ اسماعیل خان کچہری کے قریب دشتگردوں نے فائرنگ کر کے معروف سماجی شخصیت سید عفیف عباس ایڈووکیٹ ولد سید گل عباس شاہ سکنہ بستی ڈیوالہ ڈیرہ اسماعیل خان کو شہید کر دیا تھا۔ سید عفیف عباس ایڈووکیٹ ایک نامور شخصیت، ہر دلعزیز، ملنسار اور نہایت ہی خوش طبع انسان اور ماہر اور دانشور ایڈوکیٹ اور سیشن جج (انکی شہادت کے دو ماہ بعد پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں کامیابی پر بطور سیشن جج کے آرڈر بذریعہ ڈاک انکے گھر موصول ہوئے) اور مذہبی و دینی خدمات میں پیش پیش رہنے والے باوقار اور بارعب شخصیت کے مالک تھے۔ انکا تعلق ایک پڑھے لکھے اور معزز سادات گھرانے سے تھا اور معاشی اعتبار سے کافی مستحکم خاندان سے تعلق رکھتے تھے یہی وجہ تھی کہ وہ ہمیشہ حق کا ساتھ دیتے اور اکثر بغیر معاوضے کے مختلف افراد کے کیس لڑتے تھے
شہید سید عفیف عباس ایڈووکیٹ کو فوجداری و دیوانی ہر دو شعبے میں مہارت حاصل تھی، اگر فوجداری مقدمات کا ذکر کیا جائے تو کئی شیعہ افراد کے ماورائے عدالت لاپتہ ہونا اور غیر قانونی حراست کو انہوں نے ذاتی کوششوں سے اور بلامعاوضہ کورٹ کیس کے ذریعے بازیاب کرایا۔ اس سلسلہ میں ان کی حاضر سروس ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے چپکلش ہوئی اور لاپتہ شہریوں کے معاملے میں کیس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنے اور کمرہ عدالت میں انہیں دھمکی دینے کے نتیجے میں پولیس آفیسر کو فائل رسید کی، جس میں متعلقہ پولیس آفیسر 6 ماہ کے لیے معطل ہو گیا اور پولیس آفیسر کو لاپتہ شہریوں کو پیش کرنا اور قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے علاوہ ڈی آئی خان کی تحصیل پہاڑ پور کے علاقہ سردارے والا میں ماتمی جلوس کی ڈاٹسن پر دشت گردوں کی فائرنگ سے عزاداران کی شہادت اور تحصیل پروآ کے علاوہ فتح میں مجلس عزاء پر حملہ اور ذاکرین و دیگر کی شہادت کا کیس، قتل کی دھمکیوں اور جان کی پرواہ کیے بغیر نہایت دیدہ دلیری سے بلا معاوضہ لڑ رہے تھے۔
یہ خبر بھی پڑھیں شہدائے وحدت صفدر عباس ،عالم ہزارہ و علی شاہ کی 9ویں برسی
یاد رہے کہ یہ مذہبی کیس کوئی بھی وکیل بلا معاوضہ یا با معاوضہ لینے کو تیار نہیں تھا اور کیس فیصلے کے انتہائی قریب تھا۔ کیس کے فیصلے کی آخری پیشی سے چند روز قبل ان کو دن دیہاڈے پہلے دھوکہ دہی و فریب سے عدالت میں کیس کے اہم شواہد اور گواہ سے ملاقات کے سلسلے میں بلایا گیا اور ڈسٹرکٹ کورٹ اور ڈسٹرکٹ پولیس آفس سے چند فر لانگ دور تربیت یافتہ دہشت گردوں نے کھلے عام فائرنگ کر کے انہیں شہید کر دیا۔ اور اس طرح ڈیرہ اسماعیل خان کا علم و ہنر، قانونی ماہر اور بہادری کا ایک درخشاں باب اپنے اختتام کو پہنچا۔ شہید کی شہادت کو آج اٹھارہ سال بیت چکے ہیں تاہم ان کے قاتل آج تک قانون کی حراست میں نہیں آسکے۔