مشرق وسطی

شامی حکومت کا دوما کیمیائی حملے کی رپورٹ میں تحریف پر احتجاج

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) کیمیائی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے ادارے او پی سی ڈبلیو میں شام کے مستقل مندوب نے اس ادارے سے کہا ہے کہ وہ شام کے علاقے دوما میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کے بارے میں تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں تحریف کئے جانے کے معاملے کی جانچ کرے۔

او پی سی ڈبلیو میں شام کے نمائندے بسام صباغ نے ہیگ میں او پی سی ڈبلیو کے چوبیسویں سالانہ اجلاس میں اپنے خطاب کے دوران دوما میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کے بارے میں تحقیقاتی ٹیم کی رپورٹ میں چھیڑ چھاڑ اور تحریف کئے جانے سےمتعلق خبروں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ دوما میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کا دعوی شام پر امریکہ برطانیہ اور فرانس کی وحشیانہ فوجی جارحیت کے لئے ایک بہانے کے طور پر پیش کیا گیا تھا اس ادارے سے کہا کہ وہ دوما میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کرنے والے ماہرین کی شرکت سے ایک اجلاس تشکیل دے اور ان کی زبانی پوری حقیقت معلوم کرے۔

برطانوی اخبار ڈیلی میل نے حال ہی میں انکشاف کیا ہے کہ او پی سی ڈبلیو کی کوشش کی ہے کہ شام کے علاقے دوما میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ میں تحریف کرکے شام پر امریکہ فرانس اور برطانیہ کے دوبارہ حملے کا راستہ ہموار کرے۔

او پی سی ڈبلیو نے فروری دوہزار انیس میں دعوی کیا تھا کہ اپریل دوہزار اٹھارہ میں شام کے علاقے دوما میں کولورین گیس کا استعمال کیا گیا تھا ۔

امریکہ برطانیہ اور فرانس نے اس بے بنیاد دعوے کے ایک ہفتے کے بعد ہی چودہ اپریل دوہزار اٹھارہ کو شام کے علاقے دوما کے غوطہ شرقی پر ایک سو سے زائد میزائل فائر کئے تھے یہ حملہ اس وقت کیا گیا تھا جب شامی فوج نے اس علاقے کو دہشت گردوں کے قبضے سے آزاد کرالیا تھا۔

اس سے ایک ہفتے قبل سات اپریل دوہزار سترہ کو بھی امریکہ نے شام کے شمالی صوبے ادلب کے علاقے خان شیخون میں کیمیائی حملوں کے بہانے شام کے صوبہ حمص میں الشعیرات ایئر بیس پر میزائلوں سے حملہ کیا تھا ۔

شام میں فوج کے ذریعے کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی جعلی اور من گڑھت خبروں نے ہمیشہ ہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شام میں فوجی کارروائی کا بہانہ فراہم کیا ہے – حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ہمیشہ دہشت گردوں کی شکست پر تشویش رہی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button