شیخ نعیم قاسم، سیاسی بصیرت، استقامت و مقاومت کا پیکر
رپورٹ: سید عدیل زیدی
سید مقاومت، سید حسن نصراللہ کی شہادت نے عالم اسلام کو شدید غمگین و سوگوار کردیا، کیونکہ شہید سید صرف لبنان یا مقاومتی حلقوں میں ہی نہیں، بلکہ اپنی پرخلوص استقامت، قبلہ اول و فلسطینیوں سمیت عالم اسلام کیلئے بلاتفریق دردل دل رکھنے، خدمات اور مقدسات اسلامی کے دفاع کیساتھ امریکہ و اسرائیل کیخلاف میدان عمل میں رہنے کیوجہ سے عالم اسلام کے ایک ہیرو کے طور پر جانے جاتے تھے، ان کی مظلومانہ شہادت کے بعد سید ہاشم صفی الدین کے بارے میں اطلاعات آنا شروع ہوئیں کہ وہ شہید حسن نصراللہ کے جانشین ہوں گے، تاہم صیہونیوں نے انہیں بھی نشانہ بناتے ہوئے شہید کردیا۔ ایسے میں حزب اللہ کی قیادت ایک بہت بڑا امتحان تھا، تاہم تنظیم کی سپریم کونسل نے سید حسن نصراللہ کے دور قیادت میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی ذمہ داریاں نبھانے والے شیخ نعیم قاسم کو حزب اللہ کی قیادت سونپ دی ہے۔
شیخ نعیم قاسم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ جہاں ایک انتہائی مدبر اور بابصیرت سیاستدان ہیں، وہیں عالمی حالات پر انتہائی گہری نظر رکھنے، میدان جنگ کے ایک بہترین منصوبہ ساز اور استقامت و مقاومت کا شاندار نمونہ ہیں۔ اگر شیخ نعیم قاسم کی زندگی پر ایک نظر ڈالی جائے تو مختلف ذرائع سے اکٹھی کی گئی معلومات کے مطابق وہ 1953ء میں لبنان کے علاقے کفرفیلہ کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے، انہوں نے دینی تعلیم اپنے استاد آیت اللہ محمد حسین فضل اللہ سے حاصل کی اور لبنان کی یونیورسٹی سے کیمسٹری میں بیچلرز کی ڈگری حاصل کی۔ انہوں نے 70ء کی دہائی میں ہی لبنان کی اسلامی تحریکوں میں کام کرنا شروع کیا اور امام موسیٰ صدر کے ساتھ مل کر محروموں کی تحریک کی بنیاد ڈالی۔ 1970ء میں انہوں نے لبنان کی یونیورسٹی میں تربیتی علوم کی فکلٹی میں داخلہ لیا اور اس یونیورسٹی میں فرانسیسی زبان میں کیمسٹری کے شعبے کا انتخاب کیا۔ گریجویشن کے بعد لبنان کے ہائی اسکولوں میں 6 سال تک اسی شعبے میں تدریس کی۔
شیخ نعیم قاسم نے اپنی یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران مسجد میں بچوں کے لئے کلاسیں منعقد کیں، جبکہ اس وقت وہ صرف 18 سال کے تھے۔ انہوں نے اس دوران اپنی حوزوی تعلیم بھی جاری رکھی اور فقہ و اصول میں علامہ سید محمد حسین فضل اللہ کے شاگرد رہے۔ اپنی یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران، لبنان کی مسلم طلباء یونین کے قیام میں حصہ لیا اور 1974ء سے 1988 تک مذہبی اور اسلامی تعلیمی سوسائٹی کے سربراہ رہے۔ حزب اللہ لبنان کے نئے سکریٹری جنرل نے 1974ء میں امام موسیٰ صدر کی طرف سے لبنان کی تحریک محرومین کی عسکری شاخ کے طور پر امل موومنٹ کی تشکیل کے فوراً بعد اس گروپ میں شمولیت اختیار کی اور اس تحریک کے ثقافتی انچارج منتخب ہوئے، اس کے بعد وہ امل تحریک کی سپریم کونسل کے سیکرٹری بن گئے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد شیخ نعیم قاسم نے امل موومنٹ سے استعفیٰ دے دیا اور اعلیٰ حوزوی تعلیم مکمل کی اور بیروت اور اس کے جنوبی مضافات میں مساجد اور حسینیہ میں کلاسز کا انعقاد کرکے اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
شیخ نعیم قاسم 1982ء میں لبنان میں حزب اللہ کے قیام کے عمل میں نمایاں افراد میں سے ایک تھے اور حزب اللہ کی کونسل کے رکن کے طور پر منتخب ہوئے اور حزب اللہ کی تعلیمی اور ثقافتی ذمہ داریاں سونپنے تک 3 مرتبہ اس کونسل میں موجود رہے۔ بیروت میں وہ حزب اللہ کی ایگزیکٹو کونسل کے نائب سربراہ اور پھر سربراہ بنے اور آخر کار 1991ء میں وہ حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کے طور پر منتخب ہوئے۔ ان کی ذمہ داریوں میں سے ایک حزب اللہ کے پارلیمانی نمائندوں کی فعالیتوں اور ان کی سیاسی سرگرمیوں کی پیروی کرنا ہے۔ حزب اللہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے شیخ نعیم قاسم کی طویل مدت میں بہت سی پیشرفتیں شامل تھیں، جن میں جولائی 1993ء اور 1996ء کی جنگ، 2000ء میں لبنان کی آزادی اور 2006ء میں 33 روزہ جنگ کے علاوہ 2017ء کے تنازعات سرفہرست ہیں۔ شیخ نعیم قاسم کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں، جن میں سے ایک کتاب "حزب اللہ” ہے، جس میں انہوں نے اس تحریک کے مقاصد، تاریخ اور سیاسی نظریات کی وضاحت کی ہے۔
اسی طرح دیگر کتابیں: ’’امام خمینی اصالت اور جدت کے درمیان‘‘ اور انقلاب اسلامی ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے بارے میں ’’احیاء گر رہنماء‘‘ نیز ’’مزاحمتی معاشرہ:، ارادہ شہادت اور فتح مندی‘‘ جیسے قلمی آثار قابل ذکر ہیں۔ شیخ نعیم قاسم کی چھ اولاد ہیں، جن میں سے 4 بیٹے جب کہ 2 بیٹیاں ہیں۔ حزب اللہ کی سپریم کونسل نے منگل کو شیخ نعیم قاسم کو نیا سربراہ مقرر کیا، کونسل نے اس موقع پر اپنے بیان میں کہا کہ ’اللہ پر ایمان اور حزب کے اصولوں اور مقاصد کی پابندی اور سربراہ کے انتخاب کے طریقہ کار کی پیروی کرتے ہوئے کونسل نے شیخ نعیم قاسم کو سیکریٹری جنرل منتخب کیا ہے، ہم اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہیں کہ وہ حزب اللہ کی قیادت اور اس کی اسلامی مزاحمت کے اس باوقار مشن میں انہیں کامیابی عطا فرمائے۔ بیان میں شہداء، اسلامی مزاحمت کاروں اور ثابت قدم لبنانی عوام سے عہد کیا گیا کہ حزب اللہ حتمی کامیابی تک مزاحمت کے شعلہ کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے اصولوں، مقاصد اور راستے پر ڈٹی رہے گی۔‘‘