شیعہ مسنگ پرسنز، ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
تحریر: علی ناصر الحسینی
تین ہفتوں سے غیر قانونی طور پر حبس بے جا میں رکھے چار شیعہ نوجوانوں کو سی ٹی ڈی پنجاب نے چند دیگر دہشت گردوں کیساتھ شامل کرکے بتا دیا کہ ان لوگوں کو انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز میں خفیہ اطلاعات پر گرفتار کیا گیا ہے، نجانے ان بے گناہ شیعہ جوانوں پر کونسا اسلحہ ڈالتے ہیں، ابھی تک ایف آئی آر سامنے نہیں آئی، بس کچھ ٹی وی چینلز پر خبریں چلائی گئی ہیں۔ آج چونکہ اتوار ہے، اس لیے انہیں عدالت کے سامنے بھی پیش نہیں کیا جائے گا، ورنہ الزامات کا علم ہو جاتا، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ان شیعہ جوانوں کو ان کے گھروں سے اٹھایا گیا، ان کو غائب رکھا گیا، ورثاء کی طرف سے ان کے جبری اغواء کی ایف آئی آرز درج کروائی گئیں اور ان کے اغواء کا الزام خفیہ اداروں پر ہی لگایا گیا، مگر اس وقت ان کی طرف سے گرفتاریوں سے انکار کیا گیا، یہ تو ان اداروں کا ہمیشہ سے وطیرہ رہا ہے، پہلے بھی کئی جوانوں کو غائب کیا گیا، جن کی رٹ پٹیشن دائر کی گئیں تو اداروں نے گرفتاری سے انکار ہی کیا، بعد ازاں انہیں یا تو کسی بوگس کیس میں ملوث قرار دے کے ظاہر کر دیا یا وقت گزرنے کیساتھ انہیں کسی انجانی جگہ پر رات کے اندھیرے میں چھوڑ دیا گیا۔
جن چار شیعہ جوانوں کو معروف کالعدم دہشت گرد گروہوں کیساتھ گرفتار کرنے کی خبر دی گئی ہے، ان میں زاہد عباس معروف میڈیا گروپ میں اہم ذمہ داری پر فائز ہیں، توقیر مہدی انجینئر ہیں، ایک لڑکا نفسیات کا طالبعلم اور محبت حسین ایک شیعہ ٹرسٹ سے وابستہ رہا ہے۔ ان چاروں کے ساتھ تین اور جوانوں جن کا تعلق کشمیر سے ہے، انہیں بھی اٹھایا گیا تھا، ان کو دو ہفتے تک تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور 22 مئی کو چھوڑ دیا گیا تھا۔ وجاہت حسین کو جب رات کی تاریکی میں اس کے گھر سے اٹھایا تھا تو یہ کہہ رہے تھے کہ دو تین دن کے بعد چھوڑ دیں گے، اس کے گھر فون پر بات بھی کروائی گئی تھی، ان کے علاوہ بھی کچھ لوگ اٹھائے گئے ہیں، جن کو ابھی تک سامنے نہیں لائے۔ ان جبری گمشدگان کیلئے لاہور، ملتان، اسلام آباد سمیت کئی ایک شہروں میں باقاعدہ احتجاج کیا گیا، شیعہ قوم نے انہیں اپنا حصہ تسلیم کیا، اسی طرح نامور صحافی زاہد عباس کیلئے صحافیوں کی تنظیموں نے بھرپور احتجاج کیا۔ مظاہروں کے علاوہ اپنے پلیٹ فارم سے احتجاجی مراسلے لکھے گئے۔
سوچنے کی بات ہے کہ اگر یہ لوگ کسی منفی سرگرمی میں ملوث ہوتے تو ان کیلئے شیعہ قوم، جماعتیں اور صحافی تنظیمیں سامنے کیوں آتے؟ حقیقت یہی ہے کہ یہ شیعہ جوان کسی بھی منفی سرگرمی یا غیر قانونی عمل میں ملوث نہیں رہے، یہ سب لوگ سوشل میڈیا پر موجود ہیں، سامنے ہیں، ان کا کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں، ان کی معمول کی زندگی سب کے سامنے کھلی کتاب کی مانند ہے، مگر ان کو ایک کالعدم جماعت سے نتھی کیا گیا ہے، ایک ایسی جماعت، جس کا وجود ہی معدوم ہوچکا ہے اور جس سے ان کا کبھی دور کا بھی واسطہ نہیں رہا، جبکہ دوسری طرف ملک دشمن، شیعہ مخالف گروہ کے بھی چار لوگوں کو سامنے لایا گیا ہے، انہیں بھی معروف کالعدم گروہ سے مربوط کیا گیا ہے، پنجابی طالبان کے بدنام زمانہ عصمت اللہ معاویہ جو خفیہ اداروں کے ساتھ مربوط بتایا جاتا ہے، اس کے گروپ کا نام ایک بار پھر سامنے لایا گیا ہے۔
نون لیگ کا یہ طریقہ کار چلا آرہا ہے کہ یہ شیعوں کیساتھ متعصبانہ روش رکھتی ہے اور بیلنس پالیسی اختیار کرتی ہے، اگر معروف دہشت گرد کالعدم گروہ کے دہشت گردوں کو گرفتار کرے تو بیلنس کا تاثر دینے کیلئے شیعوں کو بھی پریشرایز کرتے ہیں اور گرفتاریاں کرتے ہیں، اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ بے گناہ شیعہ جوانوں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی گئی ہے۔ شیعہ قائدین اور عمائدین کو حکومت اور انتظامیہ سے کھل کر بات کرنی چاہیئے کہ یہ بیلنس پالیسی ناقابل قبول ہے۔ یہ ملک ہے یا جنگل، جس میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون لاگو ہے، یہاں عالمی سطح پر رجسٹرڈ دہشت گردوں کیلئے عام معافی ہے، جن دہشت گردوں نے اس ملک کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیا انہیں کھلی چھوٹ دی گئی ہے، ان کیساتھ کابل میں مذاکرات ہو رہے ہیں، ان کی منت سماجت ہو رہی ہے، ان کیساتھ خیر سگالی کے جذبہ کا اظہار اس شکل میں ہو رہا ہے کہ نامور دہشت گردوں کو بڑی تعداد میں چھوڑا گیا ہے، مزید کتنوں کو چھوڑیں گے، اس سے قبل بھی جب جنگ بندی کی گئی تھی تو 100 سے زائد دہشت گردوں کو چھوڑنے کی اطلاعات آئی تھیں۔
ایسا لگتا ہے کہ اس ملک کی قسمت میں یہی لکھ دیا گیا ہے، ملک سے مخلص، وفادار اور اس کے بنیان گذار اس پر قابض متعصب، تنگ نظر اور ملکی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والوں کے ستم کا شکار رہیں گے، تاوقتیکہ ملت سیاسی و سماجی حوالے سے قوی، مضبوط اور متحد نہیں ہو جاتی۔ قوم کی قیادت کرنے والوں کو ایک بار اپنی پالیسیز، طریقہ کار سیاسی و سماجی فعالیات، روابط، تعلقات پر نظرثانی کرنا ہوگی، اپنے قومی کردار کا تعین مقتدر اداروں کی مستقل روش اور پالیسیز کو سامنے رکھ کے کرنا ہوگا، اگر یہی پالیسی چلتی رہی تو ملت کے نوجوانوں میں ان پر اعتماد اور اعتبار نہیں رہیگا اور ان کی جماعتوں اور تنظیموں میں نیا خون شامل ہونے سے گریزاں رہیگا۔ اس لیے کہ لوگوں کو تحفظ چاہیئے ہوتا ہے، تب ہی کسی اجتماعی نظم کا حصہ بنتے ہیں، ہماری ملی و قومی تنظیموں کی صورتحال ناگفتہ بہ نظر آتی ہے، اس کی وجہ کچھ اور نہیں ان جوانوں کو جذب کرنے کی کشش نہ ہونا ہے۔ اپنے کردار و عمل اور روش سے ملت کی کمزوری کا تاثر ختم کریں کہ سب جانتے ہیں کہ
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات