سید ناصر حسین کی گمشدگی کے 10سال اور اہل خانہ پر گزری قیامتیں
شیعہ نیوز : آج یکم اکتوبر کا سورج طلوع ہو چکا ہے۔دس سال قبل اس سورج کے طلوع ہونے سے چند گھنٹے قبل پاکستان میں قانون کے رکھوالوں نے ایک 20 سالہ جوان کو راولپنڈی پیر ودھائی اڈہ سےاپنی غیر قانونی و غیر آئینی حراست میں لیاجسےآج یکم اکتوبر کے سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ جبری حراست میں دس سال مکمل ہو چکےہیں لیکن تاحال یہ جوان لاپتہ ہے۔
ایک ایسا جوان کہ جس پر کوئی الزام نہیں۔کوئی ایک ایف آئی آر نہیں،کسی کو قتل نہیں کیا،کسی ادارے پر حملہ آور نہیں ہوا،نہ بم بلاسٹ کیا اور نہ ہی خودکش جیکٹ پہنی،لیکن بےجرم و بے خطا دس سال غیر قانونی حراست میں گزار دئیے جب کہ احسان اللہ احسان و کلبھوشن جیسے سینکڑوں وطن دشمن اپنے پیاروں سے مل رہے ہیں اور آزاد گھوم رہے ہیں۔
ان دس سالوں میں اس پر تو کیا کیا قیامتیں ٹوٹی ہونگیں اور ان سے کتنا غیر انسانی سلوک روا رکھا گیا ہو گا یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے یا ملک کے بظاہر دوست نما دشمن ہی بتا سکتے ہیں۔
ان دس سالوں میں اس کے خاندان پر جو گزری وہ بھی کسی مصیبت عظمیٰ سے کم نہیں۔ڈیرہ اسماعیل خان سے مذہبی دہشت گردی کے ہاتھوں دسیوں جوان شہید کرا کر اس جوان کے خانوادہ کے افراد نزدیکی ضلع بھکر میں ہجرت کر گئے۔ان شہداء میں اس جوان کے والد، دو بڑے بھائی ،چچا اور پانچ کزنز شامل ہیں ۔ان کزنز میں سے بھی ایک کزن کو دہشت گردوں نے اغوا کر کے شہید کر دیا تھا اور ایک کزن کو کالی بھیڑوں نے گھر سے اغوا کیا اور بعد میں لاش دریا کنارے پھینک دی۔
اس جوان کی غیر قانونی حراست کے ایام میں اس مظلوم سید کے دو ماموں،خالہ،پھوپھی،بھتیجی اور کئی دیگر افراد کی وفات ہو نے کے ساتھ ساتھ اس کی والدہ دس سال اپنے پیارے بیٹے کی راہ میں آنکھیں بچھائے اس دار فانی کے دردوں سے اپنے بیٹے کی جدائی کا درد لئیے خالق حقیقی سے جا ملیں۔
والد اور دو بڑے بھائیوں کی شہادت کا زخم دل میں لئیے اس جوان کے بھائی اور بہنیں اپنے بھائی کی جدائی کا درد لئیے دس سالوں سے انتظار کی تکلیف کو سہہ رہے ہیں اور دن رات خدائے رحمان سے اپنے بھائی کی رہائی کی دعائیں مانگ رہے ہیں۔
دس سالوں میں کئی عیدیں گزریں ،شادی و خوشی کے کئی مواقع آئے لیکن ہر خوشی اس کی یاد کے ساتھ غم میں بدل جاتی ہے۔عزیز واقارب کے اکٹھا ہونے پر اس کی کمی عجیب کیفیات سے دوچار کر دیتی ہے۔
اس جوان کی جوانی کے دس سالوں کا کون ذمہ دار ہوگا۔ ؟اس کے روشن مستقبل کو تاریک کرنے کی ذمہ داری کس پر ہو گی؟
غم و اندوہ میں گزرنے والے ان سالوں کا مداوا کیسے ہو گا۔معاشرے و سماج میں اس کی شخصیت و حیثیت پر لگنے والے داغ کو کون مٹائے گا۔ ؟ یہ اور اس قسم کے دسیوں سوالات کے جواب و حساب دینا کس کے بس میں ہے۔؟
اس ملک میں انصاف کی توقع کس سے کریں۔
صدر مملکت، وزیراعظم،چیف آف آرمی سٹاف اورچیف جسٹس پاکستان سے کئی دفعہ اپیلیں کی گئیں ۔اداروں کے لوگوں سے روابط کیئے گئے۔کمیشن فار مسنگ پرسنز میں فائل دائر کی گئی لیکن کسی کی طرف سے بھی اس غیر انسانی اقدام کے خلاف کوئی اقدام نہیں ہوا۔
مجبوری و بے بسی پر دل خون کے آنسو روتا ہے۔فقط امید خدائے رحمان سے ہے کہ وہ جلد ہی میرے چھوٹے بھائی سید ناصر حسین کی رہائی کے اسباب مہیا فرمائے گا۔۔ انشاءاللہ