شام پر اسرائیلی جارحیت کے اہداف
تحریر: رامین حسین آبادیان
بدھ 13 جنوری کی صبح اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم نے شام کی سرزمین کو ایک اور جارحانہ اقدام کا نشانہ بنایا۔ اس حملے میں اسرائیل کے جنگی طیاروں نے عراق کی سرحد کے قریب واقع شہروں دیر الزور اور البوکمال کے بعض علاقوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ شام کے ایک باخبر فوجی ذریعے نے بتایا کہ صہیونی دشمن نے بدھ کی صبح ایک بجے دیر الزور اور البوکمال کے علاقوں پر فضائی حملے انجام دیئے۔ یہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے شام کی سرزمین کو فوجی جارحیت کا نشانہ بنانے کا پہلا اقدام نہیں ہے بلکہ 2011ء میں شام میں تکفیری دہشت گردی کے آغاز سے اب تک صہیونی رژیم کئی بار شام پر ہوائی حملے انجام دے چکی ہے۔
اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم یہ جارحانہ اقدامات امریکہ اور دیگر مغربی طاقتوں کی آشیرباد اور حمایت سے انجام دیتی آئی ہے۔ شام کی سرزمین پر اسرائیل کے حالیہ جارحانہ اقدام کے خلاف عالمی سطح پر ردعمل سامنے آیا ہے۔ اسلامی مزاحمت کی تنظیم حماس کے ترجمان حازم قاسم نے دیر الزور اور البوکمال پر اسرائیلی جنگی طیاروں کی بمباری کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے اس بارے میں کہا: "صہیونی رژیم نے شام پر حملہ کرکے مجرمانہ اقدام انجام دیا ہے۔ شام سمیت خطے کے دیگر ممالک اور اقوام کے خلاف صہیونی رژیم کے دہشت گردانہ اقدامات سے اس رژیم کی دشمنی اور تسلط پسندانہ خصلت ظاہر ہوتی ہے۔” اسی طرح شام کی وزارت خارجہ نے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو دو علیحدہ خطوط ارسال کئے ہیں۔
ان خطوط میں اسرائیلی جارحیت کی مذمت کی گئی اور اس بات پر زور دیا گیا کہ شام میں امریکہ کے حمایت یافتہ دہشت گرد عناصر کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی جارحیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل شام میں بدامنی پھیلانے کی مشترکہ سازش پر عمل پیرا ہیں۔ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی جانب سے شام پر حالیہ جارحانہ اقدامات کے کئی اہداف تھے۔ پہلا مقصد شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کے حوصلے بڑھانا اور انہیں دوبارہ منظم ہو کر سرگرم ہونے میں مدد فراہم کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صہیونی حکمران شام میں تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کو دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے حالیہ جارحانہ اقدام میں دیر الزور اور البوکمال جیسے شہروں کو وسیع فضائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔
شام آرمی کی بریگیڈ 17 کے کمانڈر نزار خضر نے اسرائیلی جنگی طیاروں کے حالیہ حملوں کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: "ان حملوں کا بنیادی اور اصلی مقصد شام میں داعش کو دوبارہ زندہ کرنا ہے۔ اسرائیل کو شام میں داعش سے وابستہ دہشت گرد عناصر کو دوبارہ منظم اور سرگرم کرنے کی کوشش میں امریکہ کی مکمل حمایت اور مدد حاصل ہے۔ ہمیں واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان جاری تعاون کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہیں۔” شام پر اسرائیل کے حالیہ جارحانہ اقدام کا دوسرا مقصد شام میں اسلامی مزاحمتی فورسز کو کمزور کرنا تھا۔ اسرائیل نے شام کے جن شہروں کو فضائی بمباری کا نشانہ بنایا ہے، وہ ایسے شہر ہیں جن کے ذریعے شام آرمی نے "التنف” کے علاقے کو اپنے گھیرے میں لینے کی کوشش کی ہے۔
التنف انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل علاقہ ہے، جو شام، عراق اور اردن کی مشترکہ سرحد کے قریب واقع ہے۔ اس علاقے میں امریکہ نے ایک فوجی اڈہ قائم کر رکھا ہے، جہاں سے شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد عناصر کو لاجسٹک اور فوجی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ لہذا اسرائیل نے دیر الزور اور البوکمال میں شام آرمی کو نشانہ بنا کر تکفیری دہشت گرد عناصر کو محفوظ راستہ فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح اسرائیل شام آرمی کی جانب سے التنف کا گھیراو کرنے کی کوشش کو ناکام بنانا چاہتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل اچھی طرح جانتے ہیں کہ شام آرمی التنف میں واقع امریکی فوجی اڈے کے گرد گھیرا تنگ سے تنگ کرتی جا رہی ہے۔ اس فوجی اڈے کی اہمیت کی خاطر اسرائیل نے دیر الزور اور البوکمال میں شام آرمی کو فضائی حملوں کا نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
شام پر اسرائیل کے جارحانہ حملوں کا ایک اور مقصد گولان ہائٹس کے مسئلے پر پردہ ڈالنا ہے۔ گولان ہائٹس کا علاقہ شام کی سرزمین کا حصہ ہے، جس پر اسرائیل نے غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے۔ شام نے ہمیشہ اس علاقے پر اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دیا ہے اور اس بارے میں اسرائیل سے ساز باز کرنے سے گریز کیا ہے۔ صہیونی حکمران اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اگر شام میں دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے تو شام آرمی کی پوری توجہ گولان ہائٹس کی جانب مبذول ہو جائے گی۔ لہذا وہ کسی صورت شام میں دہشت گرد عناصر کو مکمل طور پر ختم ہوتا نہیں دیکھ سکتے۔ اسی لئے اسرائیل اور امریکہ داعش کی ایئرفورس کا کردار ادا کرنے میں مصروف ہیں۔