مضامینہفتہ کی اہم خبریں

مسلمان ملکوں کی فوجیں ان کے لیے ایک مصیبت بن چکی ہیں۔

سید ابو الاعلی مودودی
(ساٹھ سال پرانی ایک تحریر)

"مسلمان ملکوں کی فوجوں میں بہت جلدی یہ احساس پیدا ہوگیا کہ آمریت کا اصل انحصار اُنہی کی طاقت پر ہے۔ یہ احساس بہت جلدی فوجی افسروں کو میدانِ سیاست میں لے آیا اور انہوں نے خفیہ سازشوں کے ذریعہ سے حکومتوں کے تختے اُلٹنے اور خود اپنی آمریتیں قائم کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اب مسلمان ملکوں کے لیے اُن کی فوجیں ایک مصیبت بن چکی ہیں۔ اُن کا کام باہر کے دشمنوں سے لڑنا اور ملک کی حفاظت کرنا نہیں رہا بلکہ اب اُن کا کام یہ ھے کہ اپنے ہی ملکوں کو فتح کریں اور جو ہتھیار اُن کی قوموں نے اُن کو مدافعت کے لیے دیے تھے اُنہی سے کام لے کر وہ اپنی قوموں کو اپنا غلام بنا لیں۔
اب مسلمان ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے انتخابات یا پارلیمنٹوں میں نہیں بلکہ فوجی بیرکوں میں ہو رہے ہیں اور یہ فوجیں بھی کسی ایک قیادت پر متفق نہیں ہیں بلکہ ہر فوجی افسر اِس تاک میں لگا ہُوا ہے کہ کب اُسے کوئی سازش کرنے کا موقع ملے اور وہ دوسرے کو مار کر خود اُس کی جگہ لے لے۔ اِن میں سے ہر ایک جب آتا ھے تو "زعیمِ انقلاب” بن کر آتا ھے اور جب رخصت ہوتا ھے تو "خائن اور غدار” قرار پاتا ھے۔
مشرق سے مغرب تک بیش تر مسلمان قومیں اب محض تماشائی ہیں۔ ان کے معاملات چلانے میں اب ان کی رائے اور مرضی کا کوئی دخل نہیں ھے۔ ان کے علم کے بغیر اندھیرے میں انقلاب کی کھچڑی پکتی ہے اور کسی روز یکایک اُن کے سَروں پر اُلٹ پڑتی ہے۔ البتہ ایک چیز میں یہ سب مُتحارب انقلابی لیڈر متفق ہیں اور وہ یہ ہے کہ اِن میں سے جو بھی اُبھر کر اوپر آتا ھے وہ اپنے پیش رو ہی کی طرح مغرب کا ذہنی غلام اور اِلحاد و فِسق کا علم بردار ہوتا ھے۔”
سیّد ابو الاعلیٰ مودودیؒ (تفہیمات ج ۳) 1962

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button