حضرت امام علیؑ کی شخصیت ہنوز نظروں سے اوجھل ہے، حجت الاسلام قبادی
شیعہ نیوز: حوزہ اور یونیورسٹی کے پروفیسر حجت الاسلام قبادی نے یہ بیان کرتے ہوئے کہ امام علی علیہ السلام کا حضرت زہرا (س) سے زیادہ کوئی قریبی دوست و رفیق نہیں تھا، کہا کہ مولود کعبہ کی شخصیت کو بیان کرنا ہر دور اور نسل کے لیے ضروری ہے اور اس کے بہت سے تعلیمی، ثقافتی اور سیاسی فوائد ہیں۔
دینی محقق حجۃ الاسلام علیرضا قبادی نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ امام علی علیہ السلام انسانی تاریخ بالخصوص تاریخ اسلام کی ایک نادر اور کم نظیر شخصیت ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کی شخصیت کے مختلف پہلووں اور خصوصیات کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کسی نے آپ علیہ السلام کی شخصیت کو کما حقہ بیان کرنے کا دعویٰ نہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مولود کعبہ کی شخصیت ابھی تک نظروں سے اوجھل ہے لہذا ہر نسل اور عمر کے لوگوں کے لئے آپ ع کی شخصیت کے مختلف پہلووں کو کھولنے کے ساتھ آپ کی اخلاقی، سیاسی اور ثقافتی خصوصیات کو بیان کرنا بھی نہایت ضروری ہے۔ کیونکہ یہ عمل تعلیمی ثقافتی اور سیاسی فوائد کا حامل ہے۔
یہ بھی پڑھیں : غزہ زمین پر جہنم کا منظر پیش کر رہا ہے! وزیر خارجہ ناروے
جیسا کہ روایت ہے کہ امام علی ع کا ذکر عبادت ہے
اس گفتگو میں ہم وصی رسول خدا (ص) کی شخصیت کو ایک ایسی ہستی کے نقطہ نظر سے بیان کریں گے جو آپ ع سے گہری رفاقت رکھتی ہیں۔
قبادی نے کہا کہ امام علی ع کے قریبی ترین دوستوں میں سے کوئی بھی حضرت فاطمہ (س) کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا۔ آپ علیہا السلام امیر المومنین کی بیوی ہونے کے علاوہ ان کی قریبی ترین دوست اور رفیقہ حیات بھی ہیں۔
اگر چہ رسول خدا (ص) کی یہ بیٹی خود منفرد مقام اور اسوہ کی حامل ہیں لیکن انہوں نے امام علی ع کی نزدیک ترین ساتھی کی حیثیت سے امیر المومنین کے مقام (ولایت) کو برقرار رکھنے اور آپ کی سماجی منزلت کو ثابت کرنے کے لئے منفرد جہاد کیا۔
اس دینی محقق نے مزید کہا کہ امام علی (ع) کے دوسرے ساتھیوں کی دوستی اور حضرت ساتھ فاطمہ س کی رفاقت میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حضرت زہراء س نے مشکل ترین تاریخی حالات میں کہ جب علی (ع) اکیلے تھے تو ان کا ساتھ دیا اور آپ ع کے مدد طلب کرنے سے پہلے ہی جناب زہراء س آپ کی مدد کو پہنچیں۔ جب سب نے علی ع سے منہ موڑ لیا یا خاموش رہے تو یہ فاطمہ (س) ہی تھیں جو آپ کے ساتھ رہیں، خطبے دئے اور جہاد تبیین کا آغاز کیا۔
یوں رسول خدا (ص) کی دختر نیک اختر نے جہاد تیین کی راہ میں اپنا سارا وجود علی کے لئے قربان کردیا
انہوں نے مزید کہا کہ سوال یہ ہے کہ حضرت زہراء س نے یہ جانتے ہوئے بھی کہ امیر المومنین ع کی حمایت سے اس وقت کی صورت حال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آنی، پھر بھی اپنی حمایت کیوں جاری رکھی؟
اس سوال کا جواب ہمیں جناب زہراء کے مقام امامت سے متعلق نقطہ نظر میں ڈھونڈنا چاہئے۔ کیونکہ حضرت زہراء (س) اپنے زمانے کے لوگوں کے برعکس اچھی طرح جانتی تھیں کہ علی کو پہنچنے والا نقصان صرف علی کی ذات اور ان کی مادی زندگی کے مختصر عرصے تک محدود نہیں ہے۔
امام علی ع کو دیوار سے لگانے کی پالیسی کا نتیجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلند مقاصد اور اقدار اور آپ کے مشن کو خیر باد کہنا اور قیامت تک کے لیے انسانی زندگی کے اصولوں اور سچائی کو بھلا دینا ہے۔
دوسرے لفظوں میں حضرت زہراء کا امیر المومنین ع کی حمایت میں قیام کرنے کا مقصد صرف علی کی ذات کا دفاع نہیں تھا بلکہ اس قیام اور حمایت کا مقصد رسول اکرم ص کے لائے ہوئے دین کی سچی تعلیمات، اقدار، عقائد اور سماجی زندگی کا سیرت پیامبر اکرم ص کی بنیاد پر قیامت تک کے لئے احیاء تھا۔
حجت الاسلام قبادی نے مزید کہا کہ اسی وجہ سے حضرت زہراء نے اس راہ جہاد میں اپنا سارا وجود قربان کر دیا اور جب وہ عام حالت میں حمایت جاری رکھنے کے قابل نہ رہیں تو بستر علالت پر بھی امام علی ع کا دفاع کرتی رہیں۔ چنانچہ رسول خدا (ص) کی صاحبزادی نے بستر علالت پر امیر المومنین (س) کی شخصیت کی خصوصیات بیان کیں۔
آپ (س) نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں اپنی تقریر کے ایک حصہ میں امیر المومنین (ص) کے طرز حکمرانی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: خدا کی قسم اگر علی خلافت سنبھال لیتے تو جب بھی لوگ راستے سے منحرف ہونے لگتے یا واضح دلیل کو ماننے سے انکار کرتے تو علی ع نرمی سے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف اس انداز میں رہنمائی فرماتے کہ نہ لوگوں کو تکلیف پہنچے اور نہ ہی کارگزاروں کو ملال ہو۔ گویا امیر المومنین ع کی لوگوں پر حکمرانی پیاسوں کو چشمہ زلال سے سیراب کرنے کے مترادف ہے۔
اس دینی محقق نے مزید کہا کہ امام علی (ع) ایک ایسے حکمران تھے جنہوں نے لوگوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کا مظاہرہ کیا۔ آپ ع ایک ایسے حکمران تھے جس نے معاشرے کی دولت سے اپنے لئے ذرہ برابر بھی فائدہ نہیں اٹھایا۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس جانشین کا طرز حکمرانی اس قدر عادلانہ اور شفاف تھا کہ دنیا پرست اور دنیا سے بے رغبتی دکھانے والے اور اسی طرح سچے اور جھوٹے میں واضح فرق قائم ہوجاتا تھا۔ اسی لئے آپ ع کی بہادری اور شجاعت تاریخ میں ہمیشہ کے لئے نمونہ عمل کے طور ثبت ہوگئی۔