یہ حادثہ نہیں تھا
تحریر: منتظر مہدی
تاریخ میں ایسا رہا ہے کہ دشمن جب یہ باور کر لیتا ہے کہ فلاں شخصیت سے ان کو مستقبل میں خطرہ ہوسکتا ہے یا ابھی خطرہ ہے تو اسے راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔ قبل از اسلام کی تاریخ دیکھیں تو بادشاہوں نے انبیاؑ کو قتل کروایا، بعض اوقات خود قتل کروا کر ذمہ داری بھی قبول کرتے اور اکثر اوقات کسی تھرڈ پارٹی کے ذریعے سے تاکہ رائے عامہ ان کے خلاف نہ ہو۔ تمام آئمہؑ کیساتھ بھی ایسا ہی ہوا کہ حکمرانوں نے یا تو ڈائریکٹ آئمہؑ و اہم شخصیات کو قتل کروایا یا پھر الزام اور رائے عامہ سے بچنے کے لیے قتل کروا کر نامعلوم افراد پر ڈال دیا جاتا تھا۔
جو لوگ نظام کا ستون ہوتے ہیں، مثلاً تاریخ میں اگر امام علیؑ کا دورِ خلافت دیکھیں تو مالک اشتر جیسی شخصیات بنو امیہ کے لیے خطرہ تھیں، اس لیے انہیں زہر دے کر شہید کروا دیا گیا۔ اسی طرح سے تاریخ میں اور بہت ساری مثالیں ملتی ہیں کہ آئمہؑ و ان کے اصحاب کو کسی نہ کسی طریقے سے قتل کروایا گیا، تاکہ یہ جو دشمن کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں یا مستقبل میں ان کے لیے بہت بڑا خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں تو ان کو کسی نہ کسی طریقے سے راستے سے ہٹا دیتے ہیں اور آج بھی یہ طریقہ اپنے اوج پر ہے۔
آج مسلمانوں کے ساتھ یہی المیہ ہوا ہے اور مسلمانوں کی آج ذلت و پستی و زوال کی اہم وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ اول تو اس ملت کو ایسا بنا دو کہ ان میں نادر اور نایاب شخصیات پیدا ہی نہ ہوں، جس کے لیے تاریخ میں بھی اور آج بھی بہت سارے ہتھکنڈے اور پالیسیوں کے ذریعے سے یہ کام کیا گیا اور کیا جا رہا ہے، جو کہ خود ایک مستقل موضوع ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اگر ان میں کوئی شخصیت پیدا ہو بھی جائے جو مسلمانوں کی عزت و ترقی و سربلند ی کا باعث ہو، چاہے وہ کسی بھی میدان میں ہو، اس کو راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔
مصر میں اخوان المسلمین تحریک شروع ہوتی ہے، جس کے عالم اسلام یعنی مسلم ممالک پر کافی گہرے اثرات پڑے، امریکہ و یورپ نے اس خطرے کو بھانپ لیا اور پھر ان کی اہم شخصیات، سائنسدان اور دیگر اہم شخصیات کی ٹارگٹ کلنگ شروع کر دی، یہ اعداد و شمار اور تمام معلومات انٹرنیٹ پر موجود ہیں، آپ سرچ کرسکتے ہیں کہ امریکہ و اسرائیل اور برطانیہ و یورپ نے کتنا نقصان کیا ہے۔
لبنان میں اگر دیکھیں تو حزب اللہ کی بانی شخصیات اور وہاں بیداری پیدا کرنے والی شخصیات کو اسرائیل نے شہید کیا، حماس کے بانی کو اسرائیل نے شہید کر دیا، عراق میں صدام نے بہت ساری شخصیات کو اس لیے شہید کیا کہ وہ ان کے خطرہ بن رہے تھے، پاکستان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے اندر ملت تشیع کے ڈاکٹرز، انجئینرز اور بہت ساری شخصیات کو قتل کیا گیا۔ علامہ عارف حسین الحسینیؒ کو ضیاء نے راستے سے اسی لیے ہٹایا کہ وہ اس کے لیے خطرہ تھے۔
خود امریکہ کے اندر MalconX اور LutherKing جیسی شخصیات کو خود CIA نے قتل کروایا، کیونکہ یہ ان کے لیے Potential خطرہ بن رہے تھے۔ سعودی عرب میں شہید باقر النمر کو اسی بنیاد پر شہید کیا، بحرین میں شیخ عیسیٰ قاسم، نائجیریا میں شیخ ابراہیم زکزاکی کو اسی بنیاد پر شہید کرنے کی کوشش کی گئی اور خصوصاً ایران میں اگر دیکھیں تو انقلاب اسلامی کے بعد خصوصاً بہت ساری اہم شخصیات کو قتل کیا گیا۔
ایران میں ڈاکٹرز، ایٹمی سائنسدان، انجینئرز، علماء، مدیران، جیسے شہید بہشتی، شہید مطہری، شہید قاسم سلیمانی، شہید فخری زادہ سمیت شہداء کی لسٹ بہت طویل ہے، رہبر معظم پر کئی بار قاتلانہ حملے ہوئے، تمام معلومات انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ اصل بات بتانا مقصود یہ ہے کہ دشمن اسلام کی تاریخ میں اور آج بھی یہ پالیسی اور اسٹراٹیجی رہی ہے کہ وہ اہم شخصیات جو مکتب و نظام کے ستون ہیں، ان کو راستے سے ہٹاکر ملت و قوم کا بھاری نقصان کرتا ہے۔
دشمن اسی منطق کے تحت قتل کرتا ہے کہ اگر یہ شخصیات زندہ رہی تو یہ آج بھی ہمارے لیے مشکل کھڑی کر رہی ہیں اور کل کو بھی یہ ہمارے لیے اور زیادہ مشکلات کھڑی کریں گی۔ فلسطین اور غزہ میں جو اسرائیل بچوں کا قتل عام کر رہا ہے، جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ تم بچوں کو کیوں قتل کرتے ہو، وہ کہتے ہیں کہ ہم Potential Threat کو Eliminate کرتے ہیں، یعنی کہ یہ بچہ کل کو بندوق اُٹھا کر ہمیں مارے گا، اس سے پہلے کہ یہ بڑا ہو، بندوق چلانا سیکھے اور پھر ہمیں مارے، اس سے پہلے ہم اس کو مار دیں، تاکہ یہ بڑا ہی نہ ہو۔
یہ باقاعدہ ایک تھیوری ہے کہ جس کو مغرب اپنے انداز سے پیش کرتا ہے کہ جرم سے پہلے جرم کو روکنا، یعنی کہ ابھی کوئی کام ہوا نہیں ہے، لیکن اس کے ہونے سے پہلے اس کو روک لینا، یعنی کہ نطفہ بننے سے پہلے ہی ختم کر دینا۔ (مغرب و امریکہ کے نزدیک جرم کی تعریف یہ ہے کہ جو عمل یا جو شخصیت ان کے غیر انسانی پالیسیوں کے خلاف بولے یا اقدام کرے، وہ مجرم ہے اور وہ جرم انجام دے رہا ہے)۔ حالیہ المناک و افسوسناک واقعہ کہ جس میں ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی اور ان کے ہمراہ ساتھی ہیلی کاپٹر کریش میں شہید ہوگئے۔ ابھی تک اس کو حادثہ ہی بتایا جا رہا ہے، ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ اگر ہم پس ِمنظر کو دیکھیں تو یہ حادثہ نہیں لگتا بلکہ ایک پری پلان واقعہ ہے کہ حتماً جس کے پیچھے امریکہ و اسرائیل اور انڈیا ضرور شامل ہیں۔
صدر ابراہیم رئیسی کے بارے میں دشمن کو معلوم تھا کہ یہ کیا ہیں اور ان کے لیے کتنا بڑا خطرہ ہیں اور مستقبل میں انقلاب اسلامی کی پالیسیوں کو آگے لے کر چلنے والے نمایاں ایک یہی شخصیت ہیں، ایران میں بھی یہ رائے پائی جاتی ہے کہ یہ آئندہ کے رہبر ہیں اور انہیں یاورِ رہبر کے لقب سے لوگ پکارتے ہیں۔ ابراہیم رئیسی صاحب رہبر کیساتھ ولایت فقیہ کیساتھ کاملاً ہم آہنگ تھے تو ظاہر ہے کہ دشمن کو یہ سب معلوم تھا اور اس نے یہ اقدام کیا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اللہ ایسی قیمتی اور نایاب شخصیات اگر کسی قوم کو دیتا ہے تو اس کی حفاظت بھی ضروری و واجب ہوتی ہے، ورنہ دشمن ہمیشہ گھات لگا کر بیٹھا ہے اور ایسی نایاب شخصیات کے جانے سے نظام اور قوم کو ایک دھچکا ضرور لگتا ہے، لیکن معاشرے اور نظام کے لیے مشکل تب کھڑی ہوتی ہے کہ جب معاشرہ ایسی شخصیات پیدا کرنے سے بانجھ ہو۔ شہادتوں سے اسلام و انقلاب و تشیع کبھی ختم نہیں ہوا اور نہ ہی ہوگا اور بے شک شہادت ہمارا ورثہ ہے، لیکن امت کو ایسا موقع آنے ہی نہیں دینا چاہیئے کہ ان کے امام کو ان کے ہوتے ہوئے شہید کیا جائے۔