اہم پاکستانی خبریں

توشہ خانہ کیس: بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں، چیف جسٹس

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی جانب سے توشہ خانہ کیس میں اپنی سزا کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں جن پر فی الحال مداخلت نہیں کریں گے، کل ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت دیکھیں گے۔

توشہ خانہ کیس ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کے حوالے کرنے کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف دائر درخواست پر چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی چیئرمین کے وکیل لطیف کھوسہ اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل امجد پرویز کے دلائل سنے۔

درخواست گزار کے وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مختلف احکامات کے خلاف 3 درخواستیں دائر کی گئی ہیں، عمران خان 2018 کے انتخابات میں میانوالی سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے، الیکشن ایکٹ ہر رکن اسمبلی کو اثاثہ جات کی تفصیل جمع کروانے کا کہتا ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ 6 اراکین اسمبلی نے چیئرمین پی ٹی آئی کی نااہلی کے لیے اسپیکر اسمبلی کے پاس ریفرنس بھیجا، اراکین اسمبلی نے چیئرمین پی ٹی پر اثاثوں کی غلط ڈیکلریشن کا الزام لگایا، اسپیکر اسمبلی نے ریفرنس الیکشن ایکٹ کے سیکشن 137 کے تحت چیف الیکشن کمشنر کو بھجوا دیا۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نے لطیف کھوسہ کو ہدایت دی کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 137 پڑھیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ قانون کے مطابق الیکشن کمیشن 120 روز میں ہی کارروائی کرسکتا ہے۔

’ہر مرتبہ غلط بنیاد پر بنائی گئی عمارت نہیں گر سکتی‘
جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا ایک ممبر دوسرے کے خلاف ریفرنس بھیج سکتا ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ کوئی ممبر ریفرنس نہیں بھیج سکتا، الیکشن کمیش خود بھی ایک مقررہ وقت میں کارروائی کرسکتا ہے، مالی گوشوارے جمع کرانے کے بعد 120 دن میں ہی کارروائی ہوسکتی ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کیا ایک رکن اسمبلی کسی دوسرے کے خلاف شکایت درج کروا سکتا ہے؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرے مطابق رکن اسمبلی شکایت درج نہیں کروا سکتا، اسپیکر ریفرنس بھیجتا ہے، چیئیرمین پی ٹی آئی کے خلاف اسپیکر نے ریفرنس بھیجا لیکن 120 دن گزرنے کے بعد۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس تو ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف ہے، شکایت کی قانونی حیثیت پر نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ سے مقدمہ ختم ہوچکا، اب کیس کو واپس بھیجا جا سکتا ہے؟ موجودہ کیس کا سزا کے خلاف مرکزی اپیل پر کیا اثر ہوگا؟

لطیف کھوسہ نے کہا کہ عدالت کو گھڑی کی سوئیاں واپس پہلے والی پوزیشن پر لانی ہوں گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہر مرتبہ غلط بنیاد پر بنائی گئی عمارت نہیں گر سکتی، انہوں نے استفسار کیا کہ کیا درخواست گزار کی دلیل یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے 21 اکتوبر کو سیشن عدالت میں دائر کی گئی شکایت قابل سماعت نہیں تھی؟ لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارا مؤقف ہے کہ توشہ خانہ کی شکایت پہلے مجسٹریٹ کے پاس جانی چاہیے تھی۔

 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 193 کو پڑھ کر اپنا سوال بتائیں، آپ کے مطابق اس معاملے پر ابتدائی کارروائی مجسٹریٹ کرکے ٹرائل سیشن عدالت ہی کرسکتی ہے۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ قانون میں لکھا ہے کہ مجسٹریٹ شکایت کا جائزہ لے کر اسے سیشن عدالت بھیجے گا، قانون میں مجسٹریٹ کے جائزہ لینے کا مطلب کیا ہے؟

لطیف کھوسہ نے کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ مجسٹریٹ جائزہ لے گا کہ شکایت بنتی بھی ہے یا نہیں؟ قتل نہ ہو تو دفعہ 302 کی ایف آئی آر درج نہیں ہوسکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکش ایکٹ کے تحت شکایت کون درج کروائے گا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ شکایت الیکشن کمیشن فائل کرے گا اور شکایت بھیجنے کی اتھارٹی کسی اور کو دے گا، الیکشن کمیشن ہے کیا، اس کی تعریف بھی دیکھیں۔

لطیف کھوسہ نے جسٹس مظاہر نقوی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے دائیں اور بائیں بہت سمجھدار لوگ بیٹھے ہیں اور بائیں طرف والے تو بہت ہی سمجھدار ہیں، سیکریٹری الیکشن کمیشن، خود الیکشن کمیشن نہیں ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کا کیس یہ نہیں ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میری درخواست یہی ہے کہ شکایت مجاز شخص نے دائر نہیں کی، سیکریٹری الیکشن کمیشن کو الیکشن کمیشن نے اتھارٹی نہیں دی تھی، سیکریٹری الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کو شکایت بھیجنے کا کہہ دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اختیارات کو صرف الیکشن کمیشن نیچے منتقل کرسکتا ہے، سیکریٹری الیکشن کمیشن بذات خود الیکشن کمیشن نہیں، الیکشن کمیشن کیا ہے، اس کی تعریف پڑھیں، چیف الیکشن کمشنر چار صوبوں کے ممبران مل کر الیکشن کمیشن بنتا ہے۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف شکایت سیکریٹری نے بھیجی وہ مجاز نہیں تھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ نقطہ کیسے سپریم کورٹ میں اٹھا سکتے ہیں، ہم دوسرے فریق کو سنے بغیر آپ کی اپیل کیسے مان سکتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں سیکریٹری کو الیکشن کمیشن قرار نہیں دیا جاسکتا، مرکزی اپیل تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ تو بعد کی بات ہے، سیشن جج فیصلے کے بعد امریکا چلے گئے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا ہم اس کیس کو خود سنیں یا ہائی کورٹ کو کہیں کہ وہ ان نکات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کرے، آپ کی دلیل ہے کہ بادی النظر میں سیکریٹری الیکشن کمیشن شکایت نہیں بھیج سکتا تھا، سیشن کورٹ کو شکایت مسترد کرنی چاہیے تھی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپنی حد تک بات کروں تو اس معاملے کا فیصلہ تو ہائی کورٹ میں اپیل کے ساتھ ہوگا، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا آپ نے ہائی کورٹ میں یہ سوال اٹھائے؟ کیا ہائی کورٹ نے ان نکات پر فیصلہ نہیں کیا کہ آپ یہاں آگئے، کیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم ان نکات پر فیصلہ کریں یا ان نکات کو ہائی کورٹ کے لیے ہائی لائٹ کریں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایک ایسی عدالت نے سزا سنائی جس کا دائرہ اختیار ہی نہیں بنتا، چیف جسٹس نے کہا کہ دائرہ اختیار کا معاملہ بھی ہائی کورٹ اپیل ہی سن سکتی ہے، آپ نے 5 اگست کا فیصلہ ہائی کورٹ میں چیلنج کر رکھا ہے، آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں۔

’فیصلوں پر تنقید ہوتی ہے جو فیصلوں تک ہی رہنی چاہیے‘
لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہائی کورٹ بار بار اسی جج کو کیس ریمانڈ بیک کرتی رہی، جسٹس جمال ندوخیل نے کہا کہ اب تو ریمانڈ بیک ہونے پر ٹرائل کورٹ اپنا فیصلہ سنا چکی۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہمارے ساتھ مذاق ہوا ہے، سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ پہلے سماعت ہونے کا معامہ طے ہوگا، ہائی کورٹ نے اس پر کچھ نکات پر ٹرائل کورٹ کو فیصلہ کرنے کا کہا، ٹرائل کورٹ نے ہائی کورٹ کے ان نکات کو گھاس بھی نہیں ڈالی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے لطیف کھوسہ سے مکالمہ کیا آپ ہر بات پر ہائی کورٹ پر اعتراض اُٹھاتے ہیں، آپ فیصلوں پر اعتراض اٹھائیں، ہائی کورٹ پر نہیں، آپ کو ہائی کورٹ کے فیصلے پسند نہیں آئے، آپ ہمارے پاس آگئے، عدالت پر اعتراض نہ اٹھائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ بہت اہم معاملہ ہے، فیصلے پبلک ہوتے ہیں، فیصلوں پر تنقید ہوتی ہے اور فیصلوں تک ہی رہنی چاہیے، ادارے ایسے ہی کام کر سکتے ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کرپٹ پریکٹس کا فیصلہ دینے کے کتنے دن بعد شکایت بھیجی۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ قانون میں دنوں کا تعین اثاثوں کے تفصیل جمع کرانے کے بعد سے لکھا ہے، سردار لطیف کھوسہ نے قانون پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے کہا کہ 342 اسمبلی اراکین، پھر صوبائی اراکین سب کی تفصیل الیکشن کمیشن 120 دن میں کیسے دیکھ سکتا ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ 120 دن کہاں سے شروع ہوں گے، یہ دیکھنے کے لیے اپنا مائنڈ اپلائی کرنا ہوگا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ میرا مقدمہ بار بار ایک ہی جج کو بھجوایا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کسی عدالت پر تعصب کا الزام نہیں لگا سکتے، سپریم کورٹ یہاں سول جج تک اپنے تمام ججز کا دفاع کرے گی۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم نے اس عدلیہ کے لیے اپنا خون بہایا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اس لیے تو آپ سے توقعات زیادہ ہیں، لطیف کھوسہ نے کہا کہ ہم آپ کے لیے حاضر ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارے لیے نہیں اس چیئر کے لیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہائی کورٹ نے معاملہ ٹرائل کورٹ بھیجا تھا جس کے بعد ٹرائل کورٹ نے فیصلہ کیا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ وہ جج فیصلہ دے کر لندن روانہ ہو گئے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ لندن والی بات نہ کریں، آپ صرف یہ بتائیں ہائی کورٹ کے بتائے نکات پر ٹرائل کورٹ نے فیصلہ کیا یا نہیں۔

لطیف کھوسہ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے ان نکات پر فیصلہ نہیں کیا، کیس قابل سماعت ہونے کا اپنا سابقہ فیصلہ بحال کردیا، ان جج صاحب نے فیس بک پر چیئرمیں پی ٹی آئی کے خلاف زہر اگلا ہوا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں، لیکن ہم آج مداخلت نہیں کریں گے، کل ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کو دیکھیں گے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ کو کیس ریمانڈ بیک ہونے پر اعتراض تھا یا صرف جج پر اعتراض تھا، لطیف کھوسہ نے کہا کہ مجھے دونوں پر اعتراض تھا مگر بنیادی طور پر کہہ رہا تھا کہ جوڈیشل مائنڈ تو اپلائی کریں۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں معاملہ قابل سماعت ہونے اور دائرہ اختیار کا معاملہ پہلے طے ہونا چاہیے تھا، آپ چاہتے ہیں ٹرائل کورٹ اور ہائی کورٹ نے یہ نقطہ طے نہیں کیا تو ہم کریں۔

’ہائی کورٹ میں سماعت ہو جانے کے بعد ہم مقدمہ سنیں گے‘
جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے کہا کہ ایسا کرنے سے ہائی کورٹ کی رمیڈی ضائع ہوجائے گی، لطیف کھوسہ نے کہا کہ ضائع ہوجانے دیں، قانون کو بالا ہونے دیں، اس کے ساتھ ہی لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل مکمل کرلیے جس کے بعد عدالت نے الیکشن کمیشن حکام کو روسٹروم پر بلا لیا۔

وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے چیئرمین تحریک انصاف کے تمام اعتراض پر فیصلہ کر رکھا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ بطورِ کورٹ آف لا ہم نہیں چاہتے یہ معاملہ بار بار ایک سے دوسری جگہ جائے، ہائی کورٹ نے جو معاملات ریمانڈ بیک کیے بہتر نہیں ہو گا ہائی کورٹ بھی ان پر اپنا مائنڈ اپلائی کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پہلی بات یہ ثابت ہوئی کہ ملزم کو حق دفاع نہیں دیا گیا، دوسری یہ ثابت ہوئی کہ ریمانڈ آرڈر کے اگلے ہی دن سزا دے کر ملزم کو جیل بھیج دیا گیا، فی الحال ان غلطیوں پر مداخلت نہیں کریں گے۔

’چیئرمین پی ٹی آئی کو کون سے انصاف کے مواقع دیے گئے؟ انہیں تو سنا ہی نہیں گیا‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ‏توشہ خانہ کیس میں ہم آج مداخلت نہیں کریں گے، کل ہائی کورٹ میں ہونے والی سماعت کو دیکھیں گے، ہائی کورٹ کل صبح اپیلوں پر سماعت کرے، آسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہو جانے کے بعد ہم مقدمہ سنیں گے۔

دوران سماعت چیف جسٹس، الیکشن کمیشن کے وکیل پر برہم ہو گئے، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ عمران خان کو انصاف کے مواقع دستیاب ہیں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا چیئرمین پی ٹی آئی یہاں کہیں موجود ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے تو ملزم یہاں نظر نہیں آرہا، کیا ملزم عدالت میں ہے یا جیل میں قید ہے؟ چیف جسٹس نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ ایسا مذاق نہ کریں، سابق وزیر اعظم کو کون سے انصاف کے مواقع دیے گئے ہیں؟ تین دفعہ کیس کال کر کے ٹرائل کورٹ نے ملزم کو سزا سنا کر جیل بھیج دیا، چیئرمین پی ٹی آئی کو تو سنا ہی نہیں گیا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کو جلدی کیا تھی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ملزم کو سنے بغیر ہی سزا سنا دی گئی، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ اپیل کل ہائی کورٹ میں مقرر ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی یہ سوچ ہے تو ہم بھی کل آپ کو سنیں گے، اس فیصلے میں نقائص سامنے آگئے ہیں۔

چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل لطیف کھوسہ اور الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ عمران خان کی یہ اپیل ایڈووکیٹ خواجہ حارث احمد کے توسط سے دائر کی گئی تھی جس میں عدالت عظمیٰ سے استدعا کی گئی کہ توشہ خانہ کیس کی سماعت کرنے والے ٹرائل کورٹ کی کارروائی معطل کی جائے۔

اپیل میں استدلال کیا گیا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے مقدمہ ٹرائل جج کو ہی ارسال کردیا جب کہ وکیل کی جانب سے کیس کو جج ہمایوں دلاور کے علاوہ کسی اور ٹرائل جج کے حوالے کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔

درخواست میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ نے وکیل کو کیس منتقلی کی درخواست سے متعلق میرٹ پر دلائل پیش کرنے کی اجازت دیے بغیر کیس کو اسی ٹرائل کورٹ میں واپس بھیج دیا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ جس طرح سے ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا وہ درخواست گزار کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے جب کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہائی کورٹ کا حکم ضروری غور و خوض کے ساتھ منظور نہیں کیا گیا۔

درخواست میں مبینہ تعصب کو بنیاد بناتے ہوئے کیس منتقلی کا بھی مطالبہ کیا گیا، مؤقف اپنایا گیا کہ درخواست گزار کے خلاف جلد بازی اور نامناسب انداز میں فرد جرم عائد کی گئی اور مختلف درخواستوں میں درخواست گزار کے دلائل کا بھی درست فیصلہ نہیں کیا گیا۔

واضح رہے کہ رواں ماہ کے شروع میں توشہ خانہ کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد کی جانب سے 3 سال قید کی سزا اور ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیے جانے کے بعد چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کو زمان پارک لاہور سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ہمایوں دلاور نے مختصر فیصلے میں کہا تھا کہ ’عدالت مطمئن ہے کہ درخواست گزار (الیکشن کمیشن) نے مؤثر اور مصدقہ ثبوت پیش کیے اور ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوگیا کہ انہوں نے توشہ خانہ سے حاصل کردہ تحائف اور 2018-2019 اور 2019-2020 کے دوران استعمال میں لا کر بنائے گئے اثاثوں کی جھوٹی ڈیکلریشن کے ذریعے کرپٹ پریکٹسز کا ارتکاب کیا‘۔

عمران خان کا چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کےخلاف سپریم کورٹ سے رجوع
اس کے علاوہ سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔

سپریم کورٹ میں عمران خان کے وکیل لطیف کھوسہ کی وساطت سے دائر درخواست آئین کے آرٹیکل 186-اے کے تحت دائر کی گئی۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ درخواست گزار (عمران خان) کے حوالے سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے واضح تعصب کو ثابت کرنے کے لیے کافی زیادہ ناقابل تردید شواہد موجود ہیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ یہ واضح ہے کہ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ درخواست گزار (عمران کان) کو سلاخوں کے پیچھے رکھا جائے تاکہ وہ آنے والے عام انتخابات میں حصہ نہ لے سکیں اور پاکستان کی سیاست سے بے دخل ہوجائیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کو میرے خلاف تمام مقدمات کی شنوائی سے روکا جائے اور میرے تمام مقدمات اسلام آباد ہائی کورٹ سے لاہور یا پشاور ہائیکورٹس منتقل کیے جائیں۔

درخواست میں مزید استدعا کی گئی کہ عدالتی فیصلہ ہونے تک جسٹس عامر فاروق کو مقدمات کی سماعت سے روکا جائے۔

توشہ خانہ ریفرنس
خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد کے ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا، جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے۔

گزشتہ برس اگست میں سابق حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

الیکشن کمیشن نے عمران خان کو آئین پاکستان کے آرٹیکل 63 کی شق ’ایک‘ کی ذیلی شق ’پی‘ کے تحت نااہل کیا جبکہ آئین کے مذکورہ آرٹیکل کے تحت ان کی نااہلی کی مدت موجودہ اسمبلی کے اختتام تک برقرار رہے گی۔

فیصلے کے تحت عمران خان کو قومی اسمبلی سے ڈی سیٹ بھی کردیا گیا تھا۔

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button