
ترکیہ کی اسٹریٹجک شکست
یہ بات قابل غور ہے کہ عملی طور پر ابھی جو کچھ دیکھا جا رہا ہے، وہ ایک بے مقصد میدان جنگ ہے، جس میں ترکیہ کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ترکیہ کو یہ نقصان جنگ میں باقاعدہ موجودگی کی وجہ سے نہیں، بلکہ ایسے عناصر سے قربت کی وجہ سے ہے، جو نہ تو قابل پشین گوئی ہیں اور نہ ہی قابل کنٹرول۔ قصہ مختصر موجودہ بحران کا بڑا حصہ اردوگان اور ترک حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہے اور اس کا خمیازہ خطے، عالم عرب اور امت مسلمہ کو بھگتنا پڑے گا
شیعہ نیوز: دنیا کی توجہ جہاں ایک طرف غزہ کی جنگ، مقبوضہ علاقوں اور خطے میں صیہونی حکومت کے جرائم پر مرکوز ہے، وہیں شمالی شام میں ایک اور محاذ ہر روز گرم سے گرم تر ہو رہا ہے۔ اس بار نہ صرف جولانی کی دہشت گرد حکومت اور صیہونی ریاست ایک پیچیدہ کھیل میں ملوث ہیں، وہاں ترکیہ بھی سرکاری طور پر جنگ میں داخل ہوئے بغیر علاقائی مساوات میں اپنا اہم کارڈ کھو رہا ہے۔ ان واقعات میں دہشت گرد گروہ "تحریر الشام” کا سرغنہ "ابو محمد جولانی” ایک غیر مستحکم اور مایوس کن اداکار کے طور پر سامنے آیا ہے، جو نہ صرف سیاست میں ناکام ہوا ہے، بلکہ عسکری میدان میں بھی بعض پیچیدہ دھڑوں کا آلہ کار بن چکا ہے۔ اگرچہ جولانی نے حالیہ ہفتوں میں سرحدی علاقوں میں اپنی فوجی نقل و حرکت میں اضافہ کیا ہے، لیکن یہ حرکتیں نہ صرف سنجیدہ اور بامقصد نہیں ہیں، بلکہ واضح طور پر شام کے عدم استحکام اور خطے میں ترکیہ کی پوزیشن کو کمزور کرنے کا باعث بنی ہیں۔ ترکیہ، جسے اقتصادی چیلنجوں، داخلی عدم اطمینان اور بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے، اسے ایک نئے اسٹریٹجک تعطل کا سامنا ہے۔
ترکیہ کی طرف سے شمالی شام میں ترک افواج کی موجودگی کو ابتدا میں "سرحد کی سکیورٹی کو برقرار رکھنے اور کردوں کی دراندازی کو روکنے” کے نعرے کے ساتھ جواز فراہم کیا گیا تھا، لیکن آج وہی علاقے وقفے وقفے سے جھڑپوں، فائرنگ کے تبادلے اور مشکوک نقل و حرکت کا میدان بن چکے ہیں۔ اس افراتفری کے ماحول میں، ترکیہ کے زیر اثر علاقوں میں طاقت کے خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، جولانی عملی طور پر ایک آزاد اور تباہ کن منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ ایک ایسا منصوبہ جو صیہونی حکومت کے مفادات کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ ہم آہنگ ہے، اس کے باوجود صیہونی حکومت شام کے ٹھکانوں اور حتیٰ کہ بعض اوقات تحریر الشام کے مراکز پر بھی حملے کرنے سے دریغ نہیں کرتی ہے۔ درحقیقت صیہونی حکومت کا اصل ہدف دمشق میں موجودہ حکومت کو کمزور کرنا ہے۔ دریں اثنا، ترکیہ، جو شام کے مسلح گروپوں کو منظم کرکے مذاکرات کی میز پر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی توقع رکھتا تھا، اب یہ دیکھ رہا ہے کہ یہ گروپ نہ صرف انقرہ کے وفادار نہیں ہیں، بلکہ بے قابو عوامل بن چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اہلیبؑت سے محبت ایمان کا تقاضہ اور اجر رسالت کی ادائیگی ہے، علامہ مقصود ڈومکی
اردگان حکومت کے لیے تلخ بات یہ ہے کہ اس کثیر الجہتی کھیل میں ترکیہ کے پاس کوئی جیت یا ٹرمپ کا کارڈ نہیں ہے۔ ایک طرف، وہ جولانی کے ساتھ براہ راست تصادم میں داخل نہیں ہوسکتا، کیونکہ بعض شمالی شامی علاقوں کا سکیورٹی ڈھانچہ ان گروہوں کی موجودگی پر مبنی ہے اور کوئی بھی فوجی تنازع ترکیہ کے لیے دوہرا خطرہ بن سکتا ہے۔ دوسری طرف، ایک ایسے گروپ کی کھلی حمایت (جو القاعدہ کے قریب رہا ہے) نے ترکیہ کی بین الاقوامی ساکھ پر سنجیدگی سے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ اس کے علاوہ، بعض غیر سرکاری خبروں پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تحریر الشام بعض غیر ملکی انٹیلی جنس حلقوں کے قریب ہے اور نامعلوم فریقوں کو عسکری معلومات بھیجنے کی اطلاعات نے اس گروہ کی اصل نوعیت اور اس پر قابو پانے میں ترکیہ کے کردار کے بارے میں اہم سوالات اٹھائے ہیں۔
دوسری جانب صیہونی حکومت نے جولانی کے ذریعے پیدا ہونے والے سکیورٹی چیلنجوں کو بہانہ بناتے ہوئے شام کی سرزمین پر بغیر کسی موثر رکاوٹ کے بمباری جاری رکھی ہوئی ہے۔ یہ حملے، جو بعض اوقات ترکیہ کی سرحدوں کے قریب علاقوں تک پہنچ جاتے ہیں، انقرہ کو ایک خطرناک پیغام دیتے ہیں اور وہ پیغام یہ ہے کہ اگر شمالی شام میں طاقت کا توازن برقرار نہ رکھا گیا تو ترکیہ براہ راست نقصان کے دائرے میں داخل ہوسکتا ہے۔ یہ نقصان سکیورٹی، سیاست، یا ترکیہ کی شناخت کے میدان میں ہوسکتا ہے۔ آخر میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ترکیہ بھی صیہونی حکومت پر اعتماد اور تحریر الشام کے دہشت گردوں پر سیاسی سرمایہ کاری کرکے مصیبت کا شکار ہوگیا ہے۔
ترکی اب اندرونی بحرانوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی خارجہ پالیسی میں بھی ناکام ہوچکا ہے، خطے میں اس کا اثر و رسوخ بہت کم ہوچکا ہے اور شام کی جنگ اب ایک خطرناک جال بن چکی ہے، جو اس ملک کے سیاسی جواز اور علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔ یہ بات قابل غور ہے کہ عملی طور پر ابھی جو کچھ دیکھا جا رہا ہے، وہ ایک بے مقصد میدان جنگ ہے، جس میں ترکیہ کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ترکیہ کو یہ نقصان جنگ میں باقاعدہ موجودگی کی وجہ سے نہیں، بلکہ ایسے عناصر سے قربت کی وجہ سے ہے، جو نہ تو قابل پشین گوئی ہیں اور نہ ہی قابل کنٹرول۔ قصہ مختصر موجودہ بحران کا بڑا حصہ اردوگان اور ترک حکومت کے غلط فیصلوں کی وجہ سے ہے اور اس کا خمیازہ خطے، عالم عرب اور امت مسلمہ کو بھگتنا پڑے گا۔
تحریر: مھدی نیک بین