ہم عالمی استکبار کے خلاف لڑنے والے مزاحمتی گروہوں کی حمایت کرتے رہیں گے، امیرعبداللہیان
شیعہ نیوز: ایران کے وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے الاقصیٰ طوفان آپریشن کو فلسطین کی اسلامی مزاحمت کے لیے قابل فخر آپریشن قرار دیا اور مختلف ممالک کے حکام کی جانب سے صیہونی حکومت کے اندرونی خاتمے کے اعتراف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ وہ وقت ہے جب امریکہ اور مغرب 80 دنوں سے صیہونی حکومت کی حمایت کر رہے ہیں۔
ارنا کے نامہ نگار کے مطابق، حسین امیرعبداللہیان نے جمعرات کی شام قم کے دینی مدارس کے تعلیمی بورڈ "جامع مدرسین حوزہ علمیہ” کے 13ویں قومی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ جنگ صیہونی حکومت کی اپنے اہداف کے حصول میں ناکامی اور اندرونی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔
انہوں نے غزہ میں 80 روزہ جنگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ روزانہ سینکڑوں ہتھیار اور فوجی سازوسامان مقبوضہ علاقوں میں داخل ہوتے ہیں، لیکن آج صیہونی حکومت اپنے کسی مطالبے کو پورا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ویسٹ بینک میں انسانی حقوق کی مخدوش صورت حال پر اقوام متحدہ کا اظہار نگرانی
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ غاصب صیہونی حکومت اپنے دعووں کے باوجود کوئی بھی ہدف حاصل نہیں کرسکی اور 80 دنوں کے جرائم اور قتل و غارت کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ وہ حماس کو تباہ کرنے کے ہدف کے قریب بھی نہیں پہنچ سکتے تو انہوں نے حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی تجویز پیش کی۔
ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ خطے کی صورتحال ایسی ہے کہ جس طرح الاقصیٰ طوفان آپریشن کا آغاز امریکہ کی مرضی سے نہیں ہوا، اسی طرح اس کا انجام بھی مزاحمتی گروہوں کی مرضی سے ہوگا۔
انہوں نے اپنی تقریر میں خطے اور فلسطین میں اسلامی مزاحمتی تحریکوں کو بااختیار بنانے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آج فلسطینی اسلامی مزاحمت بااختیار ہونے کے اس مرحلے پر پہنچ چکی ہے کہ صیہونی حکومت کی خوفناک بمباری بھی مزاحمت کی صلاحیت میں خلل ڈالنے کے قابل نہیں ہے۔
امیر عبداللہیان نے یمن کی انصار اللہ اور لبنان کی حزب اللہ کے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ غزہ کی حالیہ جنگ میں حوثیوں نے بحیرہ احمر میں ان بحری جہازوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے جن کی منزل مقبوضہ علاقہ ہے، ایک نئی قانونی تحریک تشکیل دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ الاقصیٰ طوفان حماس کا مکمل طور پر آزادانہ فیصلہ اور عمل تھا مگر ہم بلند آواز سے اعلان کرتے ہیں کہ ہم ان مزاحمتی گروہوں کی حمایت کرتے ہیں جو عالمی استکبار کے خلاف لڑرہے ہیں اور مشرق وسطی کے علاقے کی سلامتی میں کردار ادا کررہے ہیں۔
امیر عبداللہیان نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اس وقت بھی مغربی ایشیا کے علاقے میں بظاہر چھوٹے اسلامی مزاحمتی گروہوں نے امریکہ کے منصوبوں اور پالیسیوں کو چیلنج کیا ہے اور صیہونی حکومت اپنی بدترین صورتحال سے دوچار ہے۔
وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ اسماعیل ہنیہ کے واضح بیان کے مطابق اس وقت حماس کی صرف 14 فیصد افواج اور تنصیبات صیہونی حکومت کے ساتھ جنگ میں مصروف ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج مغرب والے واضح طور پر کہتے ہیں کہ غزہ کی جنگ کی فاتح حماس ہے مگر آج بعض مغربی ممالک "سیاسی حماس” اور "فوجی حماس” جیسی اصطلاحات متعارف کروا کر حماس کے ساتھ مذاکرات کی بنیاد پر جنگ کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امیر عبداللہیان نے کہا کہ آج امریکی تھنک ٹینکس میں غاصب اسرائیل کی مسلسل حمایت کے سلسلے میں بہت سے اختلافات پیدا ہو گئے ہیں اور وہ صیہونی حکومت کی ناکامی کو امریکہ کی ناکامی سمجھتے ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ آج امریکہ کی تسلط پسند طاقت کے پاس اپنی پالیسیوں کو نافذ کرنے کی طاقت نہیں رہی، ایسے میں حماس جیسی غیر حکومتی قوت 80 دنوں سے امریکہ کی تمام پالیسیوں اور مطالبات کو چیلنج کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ دورمیں بین الاقوامی تصورات اور سابقہ طریقہ کار تبدیلی سے گزر رہے ہیں جس میں انقلاب اور امام راحل (رح) اور رہبر انقلاب اسلامی کے افکار کی پیروی کے بہت سے مواقع موجود ہیں۔
وزیر خارجہ نے کہا اس تبدیلی کی علامتوں میں سے ایک دنیا میں ایک طاقت کی بالادستی کے نقطہ نظر میں تبدیلی ہے۔ آج، اس حقیقت کے باوجود کہ امریکہ اقتصادی اور فوجی معاملات میں اب بھی اثر انداز ہے؛ لیکن اس کی طاقت دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے۔