پاکستانی شیعہ خبریںہفتہ کی اہم خبریں

وحدت کانفرنس کی ناکامی اور علامہ جواد نقوی صاحب کی پریشانی

شیعہ نیوز: اسلام آباد میں 12 ستمبر کی تمام شیعہ اکابرین اور زعما کی کانفرنس سے باہر رکھے جانے پر علامہ جواد نقوی صاحب کی ساکھ اور قد کو شدید جھٹکا پہنچا۔ البتہ اسکے اثرات اب آہستہ آہستہ مرتب ہورہے ہیں اور ان کی پریشانی میں اضافہ بھی۔ اسلام آباد میں جہاں تمام بڑی تنظیموں کے علماء، اکابرین، مدارس، تنظیمیں یکجا ہوئے شیعت کو درپیش چیلینجز پر متحدہ فرنٹ پیش کرنے کے لئیے وہاں جواد نقوی صاحب کو باہر رکھنے پر سوالات تو اُٹھے لیکن اس سے ہوگا کیا یہ اب نظر آنے لگا ہے۔

یکم نومبر کو ہونے والی وحدت کانفرنس ہو یا پھر 23 صفر کا اربعین پروگرام علامہ جواد نقوی صاحب کو گزشتہ پروگرامات کی طرح مطلوبہ نتائج اس پیمانہ پر نہ ملنا کئی چہ مگوئیاں جنم لے رہی ہیں۔

علامہ جواد نقوی صاحب کی گزشتہ سالوں میں اپنے وسیع تر بناوٹی نقش نگار پروگرامات اور اپنے طلاب کے مجمع کی سازگاری کی وجہ سے شیعہ عوام پر ایک سحر انگیزی تو بنا رہے تھے کے ان کے پاس مضبوط اور جامع حکمت عملی ہے۔ لیکن صرف دکھانے والی چیزوں پر اور وڈیو ایڈٹ کر کے طرز طرز کے ترانے لگانے سے توجہ تو لی جا سکتی ہے مگر انقلاب اور نظام کے بلند و بانگ دعوؤں کو اس سے بڑھ کر کچھ ٹھوس چاہئیے ہوتا ہے۔ پھر یہ دکھانا کے اب بڑے بڑے لوگ متوجہ ہو رہے ہیں اس پیغام کی جانب اس پر عملی کوششیں شروع کرنا پڑیں جو کے اب پھر کھٹائی میں پڑ گیا ہے۔

پہلے پہل تو مولانا طارق جمیل اور دیگر کا ایک آدھ بر چل کر آنا تو ایسا ہی تھا لیکن اب یہ تواتر سے نہیں ہو رہا تو جواد نقوی صاحب کو اب خود چل کر ان کے پاس بھی جانا پڑا اور طاہر القادری جس پر انہوں نے اپنی زبان کی تندی سے تنقید کی ان سے بھی دل ہر ہاتھ رکھ کر مصافحہ کے لئیے ان کی بیٹھک میں جا کر عام فرد بنا پڑا۔

اب نوبت یہاں تک آگئی کے جواد نقوی صاحب امیر جماعت اسلامی کی عدم دلچسپی کے باوجود کرسی میں اسکے ساتھ بیٹھ کر کیمرے میں دیکھ کر مسکرا کر تصویر کھنچوانے کی کوشش کر رہے تھے اور سینیٹر صاحب دوسری طرف منہ کر کے تقریر میں محو تھے۔ ظاہر ہے سراج الحق صاحب نے تو اپنے پروگرام پر مرکوز رہنا تھا۔ سب سے بڑی مذہبی تنظیم کے قائد ہونے کے باوجود نہ ہی وہ سٹیج پر خصوصی بناوٹی تخت پر بیٹھنے والے اور نہ ہی وہ اس نقش سازی میں دلچسپی رکھے ہوئے۔

یکم نومبر کے پروگرامات میں شیعہ علماء اور اکابرین کی کمی بلکہ عدم دلچسپی اور اعلانیہ جواد نقوی صاحب کی سوشل میڈیا ٹیم کی جانب سے گردش کردا اعلانات کے فلاں کو بھی دعوت دے دی اور فلاں کو بھی دے دی اور اسی پر پورے زور کے باوجود اس میں 95 فیصد کا شرکت نہ کرنا اب زیادہ مسائل کھڑے کر رہا ہے۔ اب لوگ پوچھنے پر آمادہ ہیں کے آپ کے نظام امت و امامت کے دعویٰ کجا جب آپ کے اپنے لوگ آپ کو ملنے بھی نہیں آتے؟ صرف شیعہ ہی نہیں اب تو اہلسنت میں سے بھی بڑے نام غائب تھے۔

اب بات اس مرحلہ سے بھی آگے بڑھ چکی اور اسلام آباد کانفرنس میں نہ بلائے جانے کی وجہ سے کوئی شیعہ مدرسہ، تنظیم یا علماء اپنے پروگرام میں جواد نقوی صاحب کو نہیں بلا رہے کے اگر بڑے علماء نے نہیں بلایا تو ہم اس کھینچے گئے خط کو توڑنے میں پہل نہ کریں۔

اس پریشانی کی نشانیاں جواد نقوی صاحب کی جانب سے بنائی گئی تحریک تحفظ تشیع کے افراد نے کئی ایک نجی محافل میں کیا ہے۔ نتیجتاً ان کی خود بھی وحدت کانفرنس میں عدم فعالیت نظر آئی اور پروگرام کو بھی عام عوام میں گزشتہ سال کی طرح پذیرائی نہ ملی جو کے پہلے ہی امیر مختار کی توہین پر سخت سیخ پا ہوچکی تھی 2019 میں اور دوسرا متنازعہ جمعہ شروع کرنے پر علماء میں تشویش کم نہیں ہو پائی ہے۔

اب جواد نقوی صاحب جو کے ایک بڑے مدرسہ کے پرنسپل ہونے کے ساتھ ساتھ اس تاثر میں رہتے ہیں کے وہ ہمہ گیر بڑی گیم کے کھلاڑی ہیں وہ اس تنگ ہوتے حصار کو کیسے توڑیں گے یا ان کی مستقبل کی کاوشیں ایسے ہی سرد مہری کی نظر ہوتی جائیں گی؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button