مقالہ جاتہفتہ کی اہم خبریں

ضلع کرم کا مسئلہ کون حل کرائے گا؟

جب بھی حالات خراب ہوئے اپر کرم پر تمام راستے بند کردیے جاتے ہیں. اس طرح‌ اپر کرم لینڈ لاک علاقہ بن جاتا ہے. مقامی افراد کا دعوی ہے کہ اپر کرم میں 80 فیصد شیعہ آبادی ہے اور 15سے 20 فیصد اہل سنت ہیں

شیعہ نیوز: خیبرپختونخوا کےضلع کرم کے ساتھ کئی دہائیوں‌سے فرقہ وارانہ فسادات جڑے ہوئے ہیں. یہاں زمین ، شامیلات یا پہاڑیوں کے تنازعات بہت زیادہ ہیں. ان ہی دو فریقین کےد رمیان لڑائیاں‌ہوتی ہیں. پھر فریقین ان لڑائیوں‌کو فرقہ واریت کا رنگ دے دیتے ہیں. قبائل کہتے ہیں حکومت اور ریاست نے کبھی سنجیدگی سے مسئلہ حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی. علاقے کی صورت جاننے سے پہلے ضلع کرم اور اس کے اطراف پر نگاہ ڈال لیتے ہیں۔

کرم کے تین سب ڈویژن ہیں ان میں اپر کرم، لوئر کرم اور سینٹرل کرم۔ شیعہ اکثریتی علاقے اپر کرم کی سرحدیں افغانستان کے تین صوبوں‌خوست، پکتیا اور ننگرہار سے ملتی ہیں. اسی طرح سنی اکثریتی علاقے لوئر اور سینٹرل کرم سے بھی اس کی سرحدیں ملی ہوئی ہیں. علاقے تک پہنچنے کےلیے اور کوئی متبادل راستہ نہیں، انہیں سنی اکثرتی علاقوں ہی سے گزرنا پڑتا ہے.

جب بھی حالات خراب ہوئے اپر کرم پر تمام راستے بند کردیے جاتے ہیں. اس طرح‌ اپر کرم لینڈ لاک علاقہ بن جاتا ہے. مقامی افراد کا دعوی ہے کہ اپر کرم میں 80 فیصد شیعہ آبادی ہے اور 15سے 20 فیصد اہل سنت ہیں. یہاں‌صرف اہلِ سنت کا ایک علاقہ بوشہرہ ہے۔ اپر کرم کے مقبل ، تری منگل اور ملحقہ علاقوں میں بھی اہل سنت کے لوگ آباد ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: کرم کے حالات پر کوہاٹ جرگہ آج کیا اعلان کرے گا؟

ضلع کرم کا صدر مقام پاراچنار ہے اور یہ اپر کرم میں آتا ہے۔ مقبل اور تری منگل افغان سرحدی علاقے کے قریب آباد ہیں۔ غیرمعمولی حالات میں یہاں بھی امداد نہیں پہنچ پاتی۔ یہ لوگ زیادہ تر خرلاچی افغان بارڈر استعمال کرتے ہیں. یہ بھی آج کل بند ہے۔

پاراچنار میں اقلیتی برادری عیسائی اور قلیل تعداد میں ہندو اور سکھ بھی موجودہ صورت حال سے متاثر ہورہے ہیں. راستوں کی بندش کی وجہ سے یہاں‌آباد تقریبا 400 خاندانوں کی کرسمس تقریبات ماضی کی طرح‌منائی نہ جاسکیں.

لوئر کرم
اپر کرم کی طرف جانے والی مرکزی شاہراہ لوئر کرم یعنی سنی اکثریتی علاقے سے ہی گزرتی ہے. اسی شاہراہ پر اکثر گاڑیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے. یہ ہی معاملہ بڑھ کر پشاور پاراچنار شاہراہ کی بندش پر پہنچتا ہے. لوئر کرم کی سرحد ایک طرف سے بالش خیل میں‌اہل تشیع کے علاقہ سے لگتی ہے. دوسری طرف ضلع ٹل چپری چیک پوسٹ سے جاملتی ہے. یہ وسطی یا سینٹرل کرم کا علاقہ ہے جو پہلے ایف آر کرم کہلاتا تھا۔ یہ ضلع کرم کا علاقہ غیر تھا جیسے کہ جیسے پہلے ایف آر پشاور، ایف آر کوہاٹ اور ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے تھے.

مقامی صحافی کے مطابق قبائلی علاقوں‌میں جب نادرا کے ذریعے شناختی کارڈز بنائے جارہے تھے تو اُس وقت کے وزرا نے فیصلہ کیا کہ اپر کرم کو اس کے دائرہ کار سے باہر ہی رکھا جائے۔ بس پھر اس وقت سے ہی اسے سینٹر کرم یا وسطی کرم کہا جانے لگا۔ یہ علاقہ رغزہ اور خیبر سے لگتا ہے۔ شمالی وزیرستان سے بھی اس کا قریبی راستہ ہے۔ لوگ گاڑیوں‌کے ساتھ ساتھ پیدل بھی آسانی سے سفر کرسکتے ہیں.

مقامی صحافی کہتے ہیں اس وقت سینٹر کرم میں بھی امن و امان کی صورت حال خراب ہے۔ سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملے اسی علاقے میں ہوتے ہیں. ماضی میں بھی یہ علاقہ انتہاپسندی کا گڑھ رہا ہے. یہاں‌ وقتا فوقتا آپریشن کیے جاتے رہے ہیں. سینٹر کرم میں آپریشن کے بعد کچھ وقت کے لیے حالات بہتر ہوتے ہیں لیکن پھر جنگجو افراد ہتھیاروں‌کے ساتھ یہاں پہنچ جاتے ہیں. یہی صورت حال لوئر کرم کے علاقوں میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔صحافی کے مطابق ان علاقوں میں وزیرستان اورکزئی اور ضلع خیبر سے آسانی سے اسلحہ پہنچتا ہے. مسلح افراد کی آمدو رفت بھی جاری رہتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مظلومین پارا چنار سے یکجہتی کیلئے ایم ڈبلیوایم اور آئی ایس او کے لاہور میں دھرنے کا دوسرا روز، علماء اہلسنت کی بھی شرکت

اسلحہ کی برآمدگی کے لیے آپریشن کی باتوں پر اپر کرم میں شدید نوعیت کے تحفظات پائے جاتے ہیں. رکن صوبائی اسمبلی علی ہادی عرفانی اور طوری بنگش قبائل کے دیگرعمائدین کا کہنا ہے اگر اپر کرم کے اہلِ تشیع علاقوں میں آپریشن کرکے ہتھیار لے لیے جاتے ہیں تو پھر وہ مسلح افراد کا آسان ہدف بن جائیں‌گے. کیونکہ اسلحہ ہونے کے باوجود وہ لوگ خیرمحفوظ ہوچکے ہیں. طویل عرصے سے اپرکرم کے لوگوں کو یرغمال بنایا ہوا ہے. راستوں‌میں گاڑیوں پر حملے معمول ہیں. لوگوں‌کو پکڑ کے ذبح کر دیا جاتا ہے. ایسے میں انہیں غیرمسلح کرنے کے پیچھے بڑی سازش دکھائی دیتی ہے.

زمینی تنازعہ

کرم میں قبائل کے درمیان پاک و ہند کی تقسیم سے پہلے سے زمین کے تنازعات جاری ہیں۔ جنہیں فرقہ واریت کا نام دے دیا جاتا ہے. 2007 میں شروع ہونے والی لڑائی چار سال تک جاری رہی۔ شیعہ سنی قبائل نے ایک دوسرے کے درجنوں‌دیہات جلادیے تھے. ہزاروں لوگوں کو نقل مکانی کرنا پڑی. بالاآخر 2011 میں معاہدہ کے ذریعے لڑائی ختم ہو ئی۔ 2 ہزار افراد اس لڑائی کا ایندھن بنے. چند سال حالات بہتر رہے لیکن پھر وقفے وقفے سے دونوں‌ طرف کے لوگ مارے جاتے رہے. لیکن پھر رواں‌سال جولائی میں زمین کا تنازعہ فرقہ وارانہ فسادات میں تبدیل ہوگیا.

ہوا کچھ اس طرح‌تھا کہ شیعہ اکثریتی قبیلے مالی خیل اور سنی اکثریتی قبیلے مدگی کلے کے دو خاندانوں کے درمیان ایک ٹکڑے پر تنازعہ ہوا۔ اس تنازعہ کا سبب بوشہرہ گاؤں کی زرعی زمین کا ٹکڑا ہے جو پاراچنار شہر سے 15 کلومیٹر جنوب میں ہے۔ یہ زرعی زمین شیعہ قبیلے کی ملکیت ہے. جو کاشت کاری کے لیے سنی قبیلے کو لیز پر دی تھی۔ لیز اس سال جولائی میں ختم ہوئی. میعاد پوری ہونے کے باوجود زمین واپس نہ کرنے پر تنازعہ شروع ہوا. جرگہ بھی معاملہ نہیں سنبھال نہ سکا. حکومت اور انتظامیہ نے بھی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا. بس پھر زمین کا تنازعہ دیکھتے ہی دیکھتے فرقہ وارانہ فسادات میں‌تبدیل ہوگیا.

سانحہ بگن اوچت اور جرگہ

رواں سال 21 نومبر کو تو حد ہی ہوگئی، لوئر کرم کے علاقے اوچت بگن میں تقریبا 200 گاڑیوں‌کے قافلے پر گولیاں‌چلائی گئیں. 55 افراد شہید اور 30 سے زائد زخمی ہوئے. یہ قافلہ قانون نافذ کرنے والے اہل کاروں کی حفاظت میں سنی اکثریتی علاقے اپر کرم سے گزارا جارہا تھا. فائرنگ کے بعد بگن پر مسلح افراد نے جوابی حملہ کر دیا. درجنوں‌ دکانیں اور گھر جلادیے گئے. ہر طرف آگ ہی آگ تھی. ہلاکتیں بھی ہوئیں‌، بس پھر ایک دوسرے پر جوابی حملوں‌کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

مرکزی شاہراہ بند سے متاثر طلبہ کا کہنا ہے کہ اس سے بڑھ کے ستم ظریقی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اپنے ہی ملک میں‌ایک جگہ سے دوسری جگہ سیکیورٹی اداروں کی حفاظت میں جانا پڑا. پھر بھی زندہ پہنچنے کے بجائے گھر لاشیں پہنچائی جائیں. ایسے واقعات گلگت جاتے ہوئے بھی کثرت سے پیش آیا کرتے تھے.

جرگے کی کوششوں‌سے کرم میں فائربندی تو ہوچکی لیکن پشاور پاراچنار ہائی وے نہیں‌کھل سکی. شاہراہ کھولنے کی باتیں ابھی ہو رہی تھیں کہ طوری قبیلے کے مزید دو نوجوانوں‌کو بگن میں گاڑی سے اتار کے ذبح کر دیا گیا. ان دونوں‌نوجوانوں‌نے بحفاظت پارا چنار پہنچانے کے لیے مخالف فرقہ سے تعلق رکھنے والے دوستوں کو 70 ہزار روپے بھی دیے تھے. لیکن انہوں‌نے بے وفائی کی اور نوجوانوں‌کو ذبح کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: امام جمعہ پاراچنار علامہ شیخ فدا حسین مظاہری کی وفد کے ہمراہ علامہ ساجد علی نقوی سے ملاقات

اس واقعہ سے کرم کے حالات کی سنگینی کا احساس کیا جاسکتا ہے.
ان فسادات کو بھڑکانے میں بہت زیادہ ہاتھ سوشل میڈیا کا ہے. جو اپنے اپنے فرقہ سے وابستہ لوگوں‌کو مظلوم اور مخالف فرقہ کو ظالم قرار دینے کے لیے بات کو بڑھاوا دے رہے ہیں. شرمندگی کی بات یہ بھی کہ ہمارا مین اسٹریم میڈیا اس اہم ترین ایشو پر ہمیشہ سے خود کو لاتعلق رکھتا ہے. وہ سیاسی ایشو اور غیرضروری خبروں پر پورا دن ٹرانسمیشن کرتا ہے لیکن اس پر صحت مندانہ بحث یا اصل خبر بھی نشر کرنے کی زحمت تک نہیں‌کرتا. اسی لیے لوگ اپنے اپنے انداز سے سوشل میڈیا پر خبریں پھیلا رہے ہوتے ہیں. جس سے اس آگ کی تپش اور شدت پورے ملک میں محسوس کی جانے لگتی ہے. یہ ہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں دھرنوں‌کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے.

ایسے میں پشتون جرگے، سیاسی و مذہبی جماعتوں، صوبائی و وفاقی حکومت اور سیکیورٹی اداروں کو کرم پر خصوصی توجہ دینی ہوگی. معاملہ مزید طول پکڑتا ہے تو ملک دشمن قوتیں اس چنگاری کو آگ میں‌بدل دیں‌گی. پہلے ہی بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے دیگر قبائلی علاقوں میں حالات ٹھیک نہیں ہیں. خیال رہے قائداعظم محمد علی جناح‌نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی دنیا پر واضح کر دیا تھا کہ پاکستان انتہا پسندوں کا ملک نہیں ہوگا ۔ کسی ایک گروہ کی پاکستان پر اجارہ داری نہیں ہوگی۔ لیکن پھر پاک وطن میں انتہاپسندی کو کس نے پروان چڑھایا؟ سوچیے

تحریر: ندیم رضا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button