
ولایت علیؑ کا اقرار مسلک کا نہیں توحید کا مسئلہ ہے، علامہ امین شہیدی
شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) سربراہ امتِ واحدہ پاکستان علامہ محمد امین شہیدی نے جامعۃ العروۃالوثقی لاہور کے بارہویں یوم تاسیس کے موقع پر "نہج البلاغہ و منہج الولایۃ” کے عنوان پر خطاب میں کہا ہے کہ ولایت علیؑکا اقرار مسلک کا نہیں توحید کا مسئلہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام تاریخِ اسلام کی وہ ہستی ہیں، جو تمام مسالک کے درمیان یکساں طور پر قابلِ قبول ہیں؛ یعنی مکتبِ تسنن اور تشیع میں اس بات پر ذرہ بھر بھی اختلاف نہیں ہے کہ حبِ علیؑ ایمان اور بغضِ علیؑ کفر اور نفاق ہے۔ جب ہم اس نقطہ پر متحد ہیں تو ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے اور مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آخر یہ غلط فہمی کیوں عام ہے کہ "نہج البلاغہ” کو حدیث کی کتاب قرار دیا جائے! اگر کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ طالبعلم بھی مکتب اہل بیتؑ کے فقہی و کلامی منابع پر غور کرے تو فقہی احکام کے استنباط کے حوالہ سے نہج البلاغہ میں کہیں بھی ایسا کوئی جملہ یا قول نظر نہیں آتا، جبکہ نہج البلاغہ معروف ہے اور اس معروفیت کے پیشِ نظر آج ایک بہت بڑی سازش یہ بھی کی جا رہی ہے کہ نہج البلاغہ کے خطبات میں تبدیلیاں کرکے نئے ترجمہ کے ساتھ مارکیٹ میں عام کیا جا رہا ہے۔نہج البلاغہ کلامی کتاب ہے اور نہ ہی فقہی احادیث کا مآخذ و منبع؛ بلکہ یہ معرفت، کائنات و خدا شناسی کی کتاب ہے؛ اُس شخصیت کی نگاہ سے جو بعد از رسولؐ کائنات کا وارث ہے، جو علمِ شہرِ نبیؐ کا دروازہ اور نفسِ رسولؐ ہے۔
جس کی محبت کو اللہ کے حکم سے نبیؐ نے ایمان اور دوری کو نفاق قرار دیا؛ اُس شخصیت کی نگاہ سے جس کا ساتھ دینا حق ہے، کیونکہ وہ سراپا حق ہے، جو عرفاء، صوفیاء، متکلمین، سیاستدانوں اور بہادروں کا امام ہے۔ الغرض دنیا میں تکامل اور رشدِ انسانی کے اعتبار سے جتنی بھی شخصیات اپنی معراج تک پہنچی ہیں، وہ سب کی سب بعد از انبیاء علیہم السلام، علیؑ کے مقابلہ میں بہت چھوٹی دکھائی دیتی ہیں۔ نہج البلاغہ امام علی علیہ السلام کی بلند و بالا روح کی عکاس کتاب کا نام ہے۔ اس کے کلام کو سمجھنے کے لئے متکلم کی طرف دیکھنا ضروری ہے؛ متکلم جتنا بڑا ہوگا اس کے کلام کی گہرائی اور وسعت بھی اتنی زیادہ ہوگی۔ قرآن پڑھنے کے بعد ہمیں سمجھ میں آتا ہے کہ اللہ کا کلام ہونے کی وجہ سے قرآن میں اللہ متجلی ہے، اسی طرح نہج البلاغہ میں امیرالمومنین علی علیہ السلام نظر آتے ہیں۔لہذا ان کتب کو سمجھنے، جہالت کے دبیز پردوں کو ہٹانے اور ایک دوسرے کے منابع اور مآخذ سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ خبر بھی پڑھیں سندھ اسمبلی سے طلبا یونین کے بِل کی منظوری کا خیرمقدم کرتے ہیں
اگر ہم تاریخ کے بڑے بڑے بزرگوں کی نگاہ سے دیکھیں تو نہج البلاغہ کو "اخ القرآن” کہا گیا ہے۔ جس طرح قرآن مجید ہدایت کی کتاب ہے، اسی طرح نہج البلاغہ حکمت کی کتاب ہے۔ یہ کتاب ذہنِ انسانی کو کھولنے اور انسان و معاشرہ کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ ولایت کی طرف اٹھنے اور "منہج الولایۃ” پر چلنے والا پہلا قدم ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ انسان ولایت کے منہج کو نہج البلاغہ پڑھے بغیر اختیار کرے اور علیؑ کے کلام سے ناآشنا رہ کر علیؑ کے راستے کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ حبِ خدا اور حبِ علیؑ دونوں ایک ہی حقیقت کے دو رُخ ہیں۔ ولایتِ خدا و سولؐ اور ولایتِ علیؑ میں تفاوت نہیں۔ تینوں ہستیوں میں پہلا خالق اور باقی دو اس کی مخلوق ہیں، ایک نبی ہے تو دوسرا ولی، لیکن تینوں میں ولایت کا عنوان مشترک ہے۔ اگر کسی کے دل میں علی علیہ السلام کی ولایت ہے تو گویا وہ اللہ کی ولایت میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہ مسلک کا مسئلہ نہیں بلکہ توحید کا مسئلہ ہے، جسے قرآن نے بیان کیا ہے: "ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسولؐ اور وہ صاحبانِ ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکواة دیتے ہیں۔”(المائدہ:55)
اس آیت کی سب سے بارز اور اعلیٰ مصداق وہی ہستی ہے، جس کو مباہلہ کے میدان میں نفسِ رسولؐ بنا کر خود اللہ نے بیان کیا کہ اگر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ان مقامات و مراتب کا کوئی حامل ہے تو وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہیں۔ لہذا عشقِ علیؑ، عشقِ رسولؐ ہے۔ یہ مذہب و مسلک کا مسئلہ نہیں بلکہ ضمیر کی پاکیزگی کا مسئلہ ہے۔ علی علیہ السلام وہ ہستی ہیں کہ جن کی مدح و تعریف کرتے ہوئے لسانِ رسولؐ کبھی نہیں تھکی؛ رسولؐ نے علیؑ کے فضائل وہاں وہاں بیان کیے، جہاں کسی کو توقع بھی نہیں تھی کہ رسولؐ ایسا کریں گے۔ اسی لئے انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی، جنگ کا میدان ہو یا کوئی اور مقام، ان تمام جگہوں پر فضائل کا ایک ہی یکجا مجموعہ نظر آتا ہے اور وہ علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذاتِ اقدس ہے۔ میں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ علیؑ کے فضائل بیان کرنے سے مراد کسی اور کی تنقیص یا توہین نہیں ہے۔ اگر ہم علیؑ اور اہل بیت علیہم السلام کے دیگر افراد کے فضائل کا آپس میں مقائسہ نہیں کرتے تو پھر آپ علیؑ کے فضائل اور صحابہ کے درمیان تمیز کرنے پر کیوں مجبور ہوتے ہیں؟ اس کا مطلب یہی ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی مشکل ضرور ہے اور اسی مشکل کا نام جہالت ہے۔ اس جہالت کو تحقیق و مطالعہ کے ذریعے دور کرنے کی اشد ضرورت ہے۔