مضامینہفتہ کی اہم خبریں

زینبیون، محافظین خیمۂ ولایت

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) زینبیون، محافظین خیمۂ ولایت

چشم تصور میں شب جمعہ بہشت زہراء کا ایک منظر

(اے کاش اے کاش!!! شہیدِ گمنام کی قبر کے پاس سے ایک جوان کی سسکیوں کی صدا سنائی دیتی ہے۔ شبِ جمعہ ایک شہید کی قبر پر یہ جوان گھنٹوں سے اپنے گرد و نواح سے بےخبر گریہ و زاری میں مشغول ہے) ایسے میں اے کاش اے کاش کے جملے کانوں سے ٹکڑاتے ہیں۔ اے کاش ہم کربلا میں ہوتے تو حسین علیہ السلام آپ پر اپنی جان نچھاور کرتے۔ جوان مسلسل اِن الفاظ کی تکرار کر رہا تھا۔ ایک لمحے کو لگا کہ ہم بھی وہی کوفی ہیں، جو مسلسل العجل العجل کی تکرار کرتے ہیں اور پھر شہید سبطِ جعفر کا وہ جملہ *العجل جو کہتے ہیں آگئے تو کیا ہوگا؟* ہم جیسوں کو خاموش کروانے کے لیے کافی ہے۔ ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ اُس جوان کی "یالیتنا معکم” کی تکرار پھر شروع ہوئی، یوں لگا کہ جیسا ابھی اُس کی روح پرواز کر جائے گی۔ شدت گریہ سے سانس اکھڑتا ہوا محسوس ہوا، رنگت زرد اور آنکھیں لقائے الہیٰ کی مشتاق۔ اس کیفیت کو لفظوں میں نہیں بیان کیا جاسکتا ہے۔ ابھی محو حیرت تھی کہ دوبارہ یہی تکرار شروع ہوئی، کاش ہم کربلا میں ہوتے۔۔ ہم کاش کاش کہتے رہ گئے اور شہداء ہم سب پر سبقت لے گئے۔

کاش ہم کربلا میں ہوتے! یہ وہ جملہ ہے، جو ہر حسینی حسرت سے آہ بھر کر کہتا ہے کہ کاش سبطِ پیغمبر ہم ہوتے تو آپ پر اپنی جان نچھاور کرتے۔ رکیے کیا آپ بھی میری طرح کاش کہنے والوں میں سے ہیں؟ کاش ہم بھی سرخرو ہوتے، ہمارا بھی سب سے افضل شہداء کی فہرست میں نام ہوتا۔ یہ وہ خیالات ہیں، جو ہم اکثر سوچتے ہیں، اپنی زبان سے دہراتے ہیں، زیارت پڑھتے ہوئے کربلا کا ذکر کرتے ہوئے۔پھر یہ خیال آتا ہے کہ ہم کیا کرسکتے ہیں، اس لیے کہ ہمیں پروردگار عالم نے اکسٹھ ہجری سے پہلے پیدا ہی نہیں کیا تھا، ہم تو بظاہر چودہ صدیوں کے فاصلے پر ہیں۔ اب ذرا منظر بدلتے ہیں، چودہ صدیوں کی مسافت سے ہم نے کربلا کا پیغام سن لیا، پڑھ بھی لیا، ہم نے اپنے جذبات کا اظہار بھی کرلیا، ہم نے اے کاش اے کاش کی گردان بھی یاد کرلی اور اسی دوران ہمیں پتہ چلا کہ یزید جو اکسٹھ ہجری میں امام حسین کے مدمقابل تھا، آج بھی اپنی نئی شکل کے ساتھ سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں 13 جمادی الاول، تاریخ شہادت دختر رسول و آغاز ایام فاطمیہ ؑ

اِس نے اپنا نام داعش رکھا ہے اور یہ علی الاعلان کہہ رہا ہے کہ وہ اسلامی خلافت کا وارث ہے اور وہ اپنی پوری طاقت اور پوری دنیا سے ملنے والی مراعات کے بل بوتے پر چودہ صدیوں قبل کربلا کا میدان سجانے والوں کی قبریں اکھاڑ دے گا۔ گویا ایک بار پھر خانوداہ نبوت و رسالت کی مقدس ہستیوں کو تہ تیغ کرکے اِن کے اہل بیت کو اسیر کر دے گا، مسجد کے محراب میں کھڑا ہوا چیختا ہے، چلاتا ہے کہ وہ ایسا کرے گا اور پھر اکسٹھ ہجری کی طرح قاضی شریح کی نسل کے فتویٰ باز اُس کی بھرپور حمایت میں سامنے بھی آتے ہیں اور مدافعین حرم پر فتوٶں کی فیکٹریاں بھی کھولی جاتی ہیں۔ اب ایسے میں ہم جیسے "یا لیتنا” کی گردان کرنے والے اُن مدافعینِ حرم کے حق میں دو لفظی بیان دینے سے بھی گریز کرتے ہیں اور مصلحت کی پوشاک بوقت ضرورت اوڑھ لیتے ہیں، گویا عصرِ عاشور "ھل من ناصر” کی صدا ہمارے لیے نہیں تھی۔

ہم اہلِ جبر کے نام و نسب سے واقف ہیں
سروں کی فصل جب اتری تھی، تب سے واقف ہیں
کبھی چھپے ہوئے خنجر، کبھی کھنچی ہوئی تیغ
سپاہ ظلم کے ایک ایک ڈھب سے واقف ہیں
وہ جن کی دستخطیں محضرِ ستم پہ ہیں ثبت
ہر اُس ادیب، ہر اُس بے ادب سے واقف ہیں
یہ رات یوں ہی دشمن نہیں ہماری کہ ہم
درازی شب غم کے سبب سے واقف ہیں

شہدائے زینبیون زینبی تھے، خیمہ حسین کے محافظین تھے، یہ اہل دل اور اہل معرفت تھے۔ ان کی قربانی ہر محب اہل بیت کے لیے مشعل راہ ہے۔ فطری عمل ہے کہ انسان اس قسم کے حادثات کے بعد دو زاویوں پر عموماً سنجیدگی سے غور کرتا ہے۔ ایک اپنے محسن کے مشن کا تحفظ اور اُس کے نظریات کا پرچار اور دوم قاتل سے انتقام کی راہ کی تلاش۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایسے مواقع پر مقتول کے پسماندگان کی نگہداشت اور اِن کے دنیاوی مال و متاع کا تحفظ ایک ضروری امر ہوتا ہے، مگر حقیقتاً اس سے بڑھ کر قیمتی سرمایہ شہید کا نظریہ ہوتا ہے، جس کے لیے وہ اپنی جان تک قربان کر دیتا ہے۔ پس اس کے نظریئے کو زندہ اور اِس کی جدوجہد کو جاری رکھنا ہی اس کے حق کی ادائیگی میں شمار ہوتا ہے۔ جہاں تک فطری طور پر قاتل سے انتقام لینے کا تعلق ہے تو اس میں جذبات کی بجائے شعور کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک نظریاتی شہید کے اجرتی قاتل کو قتل کرنے سے غصہ ماند تو پڑ سکتا ہے، مگر مقاصد کبھی حاصل نہیں ہوسکتے۔ امام سجاد علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اگر ہم یزید کی ساری فوج بھی قتل کر دیں تو اس کی قیمت کربلا میں مارے جانے والے ہمارے ایک گھوڑے سے بھی کم ہے۔

کیسا انصاف ہے کہ یہاں داعش اور تکفیریت کو مکمل امان نامہ حاصل ہے، مگر شہدائے اسلام کے حق میں کہنے کو دو لفظ نہیں؟ پاسبانِ حرم کے اہل خانہ کو آج بھی ہراساں کیا جاتا ہے اور شب کی تاریکی میں ہمارے جوان کہاں غائب کئے جاتے ہیں، کسی کو علم نہیں، کوئی پرسان حال نہیں۔ مزید مشکلات ہماری نام نہاد مصلحانہ روش، سیاسی بصیرت کا فقدان اور قیادتوں کی عدم موجودگی پیدا کرتی ہیں۔ ہم آج تک حکومت سے مدافعین حرم کے حوالے سے دو ٹوک موقف حاصل نہیں کرسکے بلکہ یہ معاملہ اس قدر حساسیت کی نظر کر دیا گیا کہ اس پر قلم اٹھانے والا ایک بار سوچتا ضرور ہے۔ کیا ضروری ہے ہر بار وہی بات کہی جائے، جس کی سُر سامراج کو پسند ہو۔؟

ہمارے زینبیون کے تمام شہداء نہ صرف دفاعی لحاظ سے بلکہ نظریاتی اعتبار سے بھی معزز اور قابل ذکر ہیں۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ کالعدم جماعتوں کو حکومتی اداروں کی نہ صرف پشت پناہی حاصل ہے بلکہ ایک منظم سازش کے تحت تکفیری عناصر کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، تاکہ وہ سالوں سے جاری ایک مکتب کی نسل کشی میں بھرپور کردار ادا کریں اور دوسری طرف شہدائے زینبیون اور محافظینِ ولایت کے اہل خانہ کو تھریٹ کرنا، جبری طور پر سالوں سے لاپتہ کرنا اور ہمارے جوانوں کو بلاجواز ہراساں کرنے کا لامتناہی سلسلہ جاری ہے۔ سالوں سے ہمارے پیارے زندان کی کال کوٹھڑیوں میں بغیر کسی جرم کے اسیری کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ریاستِ مدینہ کے رکھوالے نہ تو اُن کا جرم عیاں کرتے ہیں اور نہ انہیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔بیلنس پالیسی کے نام پر ایسی پالیسیاں وضع کی جاتی ہیں، جو سمجھ سے بالاتر ہیں۔ کیا ہمارا حسینی ہونا اتنا بڑا جرم ہے؟ کیا اہل بیت کے مقدسات کی حفاظت کرنا واقعاً ناقابل معافی جرم ہے۔؟

تحریر: سویرا بتول

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button