دنیا

صیہونی فوج کے 155 اہلکار حماس کی قید میں ہیں، صیہونی فوجی ذرائع

شیعہ نیوز:اسپوٹنک نے عبرانی ذرائع ابلاغ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ صیہونی فوج کے ذرائع نے بتایا ہے کہ حماس نے کم از کم 155 افراد کو یرغمال بنا رکھا ہے۔

اس سے پہلے صہیونی ذرائع نے قیدیوں کی تعداد کم بتائی تھی جب کہ مزاحمتی گروہوں کے قبضے میں صہیونی قیدیوں کی تعداد قابض فوج کے اعلان کردہ اعداد و شمار سے زیادہ ہے۔
صیہونی حکومت کے انٹیلی جنس حکام حماس کے ہاتھ لگنے والے اپنے اہلکاروں کو اب سے مردہ تصور کرتے ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق ایک باخبر ذریعے نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تل ابیب حکام عالمی رائے عامہ کو ہموار اور فلسطینی مخالف جذبات پیدا کرنے کے مقصد سے نفسیاتی مہم کے نئے میڈیا پلان کے تحت حماس کے ہاتھوں یرغمال صیہونی اہلکاروں کو پہلے ہی مردہ ڈکلیئر کر چکے ہیں۔

تاکہ دنیا کی ہمدردی سمیٹ سکیں اور غزہ کی پٹی کے خلاف زمینی مہم سے پہلے فلسطینیوں کو زبردستی عرب ممالک میں منتقل کرنے کے اپنے مذموم منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری کر سکیں۔

دوسری طرف فلسطینی خبر رساں ایجنسی وفا کے مطابق محمود عباس نے اردن کے دارالحکومت عمان میں امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن کے دورے کے دوران غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی جارحیت کو فوری بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کی پٹی کی آبادی کی نقل مکانی اس علاقے کے لوگوں کے لیے دوسری آفت ہوگی۔ محمود عباس نے مطالبہ کیا کہ غزہ کی پٹی میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوری کراسنگ کھولنے کی اجازت دی جائے تاکہ اس علاقے کے مکینوں کو پانی، بجلی اور ایندھن کی فراہمی کے ساتھ طبی سہولیات بہم پہنچائی جا سکیں۔

فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ نے غزہ کی پٹی میں تمام انسانی خدمات کی معطلی اور علاقے کے واحد پاور پلانٹ کے بند ہونے کے نتیجے میں انسانی المیہ پیدا ہونے سے خبردار کیا۔

انہوں نے دونوں طرف سے شہریوں کے قتل یا بدسلوکی سے متعلق کارروائیوں کو مسترد کرنے پر زور دیتے ہوئے شہریوں، قیدیوں اور زیر حراست افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

واضح رہے کہ جمعے کے روز صیہونی فوج نے ایک بیان میں غزہ شہر کے تمام رہائشیوں سے کہا کہ وہ اپنے گھر خالی کر کے جنوب کی طرف چلے جائیں۔

اقوام متحدہ نے جمعہ کے روز بھی اعلان کیا کہ صیہونی فوج نے الٹی میٹم دیا ہے کہ غزہ کے تقریباً ڈیڑھ ملین فلسطینیوں کو اگلے 24 گھنٹوں کے اندر غزہ کے جنوب میں منتقل ہونا چاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button