مضامین

16 مئی یوم مردہ باد امریکا (خصوصی تحریر)

تحریر: صابر کربلائی
(مرکزی ترجمان فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان)

16 مئی کو سرزمین پاکستان پر فرزندان اسلام و پاکستان عالمی سامراجی قوتوں اور بین الاقوامی دہشت گردی کے بانی عالمی دہشت گرد امریکہ کے خلاف ”یوم مردہ باد امریکہ” مناتے ہیں، اس دن کو منانے کا حکم فرزند انقلاب و فرزند امام خمینی (رہ) علامہ شہید قائد عارف حسین الحسینی نے دیا تھا، شہید قائد (رہ) نے فرمایا تھا کہ سولہ مئی یوم مردہ باد امریکہ ہے اور اس دن سرزمین پاک کو مردہ باد امریکہ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھنا چاہئیے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر سولہ مئی کو یوم مردہ باد امریکہ کیوں قرار دیا گیا؟ اس سوال کے جواب کو تلاش کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی سرزمین کہ جسے فلسطین کے نام سے جانا جاتا ہے اور پیغمبر ختمی مرتبت حضرت محمد (ص) کو معراج کے سفر کے دوران پہلے مسجد اقصٰی لایا گیا تھا، جو مسلمانوں کا قبلہ اول تھا اور اسی مقدس مقام اور سرزمین کو غاصب اسرائیل نے امریکی ایماء اور برطانوی حمایت سمیت یورپی مدد اور تعاون کے ذریعے 1948ء میں ہتھیا لیا اور فلسطینیوں کے سرزمین پر ایک ایسی غاصب اور غیر قانونی ریاست کا وجود تشکیل دیا جسے ”اسرائیل ” کہا جاتا ہے۔

فلسطین پر صیہونی جارح ریاست اسرائیل کے غاصبانہ تسلط کی داستان تو کافی طویل ہے، جو انجمن اقوام سے شروع ہو کر بعد میں اقوام متحدہ تک جا پہنچتی ہے، لیکن اہم نقطہ یہ ہے کہ کس طرح سے عالمی سامراجی قوتوں امریکہ اور برطانیہ نے دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت کروائی اور یہودیوں کی شدت پسند تحریک صیہونیزم کے ذریعے فلسطین پر غاصبانہ تسلط کے صیہونی خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ سرزمین فلسطین پر اسرائیل کا وجود اور قیام کوئی ایک یا دو روز کی بات نہیں بلکہ اس کے لئے 1919ء سے ہی صیہونیزم کے بانی اور عالمی سامراجی دہشت گرد حکومتیں منصوبہ بندی کر رہی تھیں اور مختلف اوقات میں مختلف طریقوں اور حیلے بہانوں کے ذریعے فلسطین میں اسرائیلی ریاست کے قیام کی کوششیں کی جا تی رہیں۔ برطانوی سامراج کے وزیر خارجہ بالفور کے اعلامیہ کو صہیونی دہشت گردوں نے فلسطین میں ناجائز نسل پرست صہیونی ریاست قائم کرنے کے لئے ایک قانونی دلیل کے طور پر استعمال کیا۔ یہ اعلامیہ نومبر 1917ء میں جاری کیا گیا۔ لیکن صہیونیوں نے انیسویں صدی میں ہی فلسطین پر قبضے کی منصوبہ بندی کرلی تھی۔ اس سازش کے تحت نسل پرست یہودی یعنی صہیونی برطانوی سامراج کی فوج میں بھی شامل ہوئے۔ پہلی جنگ عظیم کی صف بندی میں دنیا کے بڑے ممالک دو حصوں میں تقسیم تھے۔ برطانوی اور فرانسیسی سامراج، روس، بیلجیم، اٹلی، جاپان، یونان، مونٹے نیگرواور سربیا پر مشتمل Allies یعنی اتحادیوں کا مقابلہ سینٹرل پاورز یعنی مرکزی طاقتوں کے ساتھ تھا، جن میں مسلمانوں کی مرکزی خلافت ترکی، جرمنی اور آسٹریا، ہنگری شامل تھے۔

اس دور میں پس پردہ جو سازشی معاہدے و خط و کتابت ہوئیں، عالم اسلام اور خاص طور پر دنیائے عرب پر اس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں برطانوی ہائی کمشنر (یعنی سفیر) سر ہنری میک میہن نے ترک خلافت کے عرب گورنر برائے حجاز حسین بن علی جنہیں شریف مکہ بھی کہا جاتا تھا، کے ساتھ خفیہ خط و کتابت میں وعدہ کیا تھا کہ اگر اتحادی ممالک جنگ جیت گئے تو ترک خلافت کے زیر حکومت عرب علاقے آزاد ہوجائیں گے۔ ایک جانب یہ عہد و پیمان کئے جا رہے تھے تو دوسری جانب مئی 1916ء میں برطانوی سامراج کے اعلٰی سفارتکار سر مارک سائیکس اور بیروت میں فرانسیسی قونصلر فرینسواژارژ پیکو نے یہ طے کرلیا تھا کہ جنگ عظیم اول میں کامیابی کے بعد سلطنت عثمانیہ (یعنی ترک خلافت) کے مفتوحہ علاقوں کو برطانیہ، فرانس اور روس آپس میں تقسیم کرلیں گے۔ یہ اس نوعیت کا تیسرا رائونڈ تھا ۔23 نومبر 1915ء کو لندن میں پہلا رائونڈ ہوا، جہاں برطانوی ٹیم کی قیادت سر آرتھر نکولسن نے کی تھی۔ 21 دسمبر 1915ء کو دوسرے رائونڈ میں برطانوی وفد کی قیادت مارک سائیکس نے کی۔ 9 مئی 1916ء کو لندن میں تعینات فرانسیسی سفیر پال کیمبون نے برطانوی وزیر خارجہ سر ایڈورڈ گرے کو لکھے گئے خط میں اس مجوزہ تقسیم بندی کی تفصیلات بیان کیں۔ 16 مئی 1916ء کو ایڈورڈ گرے نے جوابی خط میں اس کی توثیق کر دی۔

شاید یہی وجہ ہے کہ شہید بزرگوار شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی (رہ) کی بابصیرت قیادت نے سولہ مئی کو سرزمین پاکستان میں ”یوم مردہ باد امریکہ” قرار دیا، اگرچہ اسرائیلی غاصب ریاست کا وجود 1948ء میں 14 مئی کو وقوع پذیر ہوا، لیکن اس کی بنیاد پر دستخط تو سولہ مئی کو ہی ہوچکے تھے، خیر 14 مئی کو غاصب اسرائیل کا وجود قیام میں آنے کے بعد جو ظلم و بربریت غاصب اسرائیلی درندوں نے شروع کی، اس کی تاریخ میں شاید ہی کہیں مثال نظر آئے۔ صیہونی ریاست کے بنانے والوں اور اس کے قیام کے لئے استعماری قوتوں کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنے والوں کا یہ نظریہ تھا کہ یہودی جو دنیا کی سب سے عظیم اور برتر قوم ہیں اور دنیا کے تمام وسائل پر انہی کا حق ہونا چاہئیے تو ان کے رہنے کے لئے بھی ایک ایسی الگ تھلگ جگہ یعنی ریاست ہونی چاہئیے، جہاں وہ اپنی حکومت کا قیام عمل میں لاسکیں، اور اسی نظریے کی تکمیل 1948ء میں 14 مئی کو وقوع پذیر ہوئی اور پھر اگلے ہی روز ان تمام شدت پسند یہودیوں (صیہونیوں) نے سرزمین فلسطین پر بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ ایسا بدترین سلوک انجام دیا کہ تاریخ آج بھی شرمندہ ہے۔

1948ء کو 15
مئی کے دن شدت پسند یہودیوں (صیہونیوں) یا پھر اس طرح سمجھ لیجئے کہ صیہونی تحریک کے دہشت گردوں نے پورے فلسطین میں ایک کہرام بپا کر دیا اور فلسطینیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا شروع کیا، صیہونیوں کی ایک تنظیم جس کا نام ہگانہ ہے، کا ذکر اس حوالے سے کافی اہم ہے کہ جس کے دہشتگردوں نے ہزاروں نہتے اور معصوم فلسطینیوں کو صرف اور صرف ایک ہی روز میں بدترین مظالم کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔ ہگانہ کے دہشت گردوں نے مظلوم فلسطینیوں کو نہ صرف مہلک ہتھیاروں، خنجروں اور تلواروں سے قتل کیا بلکہ اس دہشت گرد صیہونی تنظیم نے فوجیوں کے ساتھ مل کر فلسطین کے علاقوں میں پانی کی سپلائی لائنوں میں زہریلے مواد تک ملا دیئے، تاکہ زہریلا پانی پی کر فلسطینی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں، اور اس کام میں ہگانہ تنظیم کے دہشتگردوں کے ساتھ ساتھ اسرائیلی صیہون فوج کے اعلٰی عہدیدار بھی ملوث رہے۔ بہرحال مسلم امہ کے قلب ”فلسطین” پر اسرائیل نامی خنجر گھونپ دیا گیا اور ایک ہی روز یعنی 15 مئی 1948ء کو اسرائیلیوں نے فلسطینیوں پر ایسے مظالم کا سلسلہ شروع کیا، جس کا انجام ہزاروں فلسطینیوں کی موت کے ساتھ ہوا اور نتیجے میں سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو صرف ایک ہی دن میں فلسطین سے ہجرت کرنے پر مجبور کر دیا گیا اور اس طرح یہ لاکھوں فلسطینی بے کسی اور بے بسی کے عالم میں اپنے ہی وطن سے تارکین وطن ہونے کے بعد فلسطین کے پڑوسی ممالک شام، مصر، لبنان اور اردن کی طرف رخ کر گئے۔

15 مئی 1948ء کو فلسطین میں صیہونیوں کے ہاتھوں ہونے والی اس تباہی اور بربادی کو فلسطین کے باسیوں نے ”نکبہ” کا نام دیا نکبہ یعنی ”تباہی اور بدترین بربادی۔” یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں فلسطینی گذشتہ پینسٹھ برس سے پندرہ مئی کو ”یوم نکبہ” کے عنوان سے مناتے ہیں، یعنی ”تباہی اور بربادی کا دن” کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔ دوسری طرف صیہونیوں نے اس دن کو اپنی آزادی اور اپنے وطن کے قیام کا دن قرار دے رکھا ہے اور اس دن کہ جس دن انہوں نے خو دہی اپنے ہاتھوں سے لاکھوں فلسطینیوں کو ظلم اور بربریت کا نشانہ بنایا تھا، اس دن خوب جشن اور رنگ رلیاں منائی جاتی ہیں اور پورے قابض علاقے میں کہ جس کو اسرائیل کا نام دیا گیا ہے، میں جشن اور رونق کا سماں ہوتا ہے۔ اسی روز عالمی دہشت گرد امریکہ نے بھی غاصب اسرائیلی ریاست کو اقوام متحدہ میں سب سے پہلے تسلیم کرتے ہوئے اسرائیل کو قانونی حیثیت دینے کی کوشش کی اور شاید یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ شہید قائد علامہ عارف حسینی الحسینی (رہ) نے امریکہ کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے سولہ مئی کو ملک بھر میں یوم مردہ باد امریکہ منانے کا اعلان کیا، جو آج تک شہید قائد کے فرزند نوجوانان آئی ایس او اسی شان اور اسی آب و تاب کے ساتھ مناتے ہیں، جس کا شہید نے ان سے مطالبہ کیا تھا۔

تاریخ میں دنیا کے اندر کئی ایک ایسے واقعات ہوں گے کہ جس میں ڈاکووں کی جانب سے لوٹ لئے جانے کا ذکر ملتا ہوگا، یا پھر عالمی سطح پر کچھ ایسی چوریاں بھی ہوں گی کہ جس کا ذکر تاریخ میں موجود ہوگا لیکن یہ کیسی چوری اور ڈکیتی تھی کہ جس پر پوری دنیا خاموش تماشائی بنی رہی اور مظلوم فلسطینی عوام کو صیہونی درندوں کے رحم و کرم پر ہی رہے، یوم نکبہ کے بعد منظر عام پر آنے والی رپورٹس میں لکھا گیا کہ یوم نکبہ کے روز جہاں مختلف نوعیت کے مظالم کا ارتکاب کیا گیا، وہاں کئی ایک ایسے واقعات بھی سامنے آئے کہ صیہونیوں نے فلسطینیوں کو ان کے گھر خالی کرنے کا حکم دیا اور گھر چھوڑ کر جانے کا کہا تو فلسطینیوں نے اپنے گھر کو چھوڑنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد صیہونی دہشت گردوں نے گھر کے بڑوں کو گھر سے نکال کر بچوں کو گھروں میں بند کر دیا اور پھر پورے گھروں کو یا تو مسمار کر دیا یا پھر زہریلے آتش گیر مادے کے ذریعے نذر آتش کر دیا گیا، اور اس طرح کے واقعات میں درجنوں نہیں سینکڑوں معصوم کم سن اور شیر خوار بچے صیہونی درندگی کا نشانہ بنے۔

دنیا بھر میں فلسطینی اس دن کو آج بھی ”یوم نکبہ” کے عنوان سے منا رہے ہیں اور رواں برس بھی پندرہ مئی کو اس یوم کو منایا جائے گا لیکن اس مرتبہ منائے جانے کا انداز شاید کچھ تبدیل ہو رہا ہے کیونکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ شعور اور آگہی میں اضافہ بھی بڑھ رہا ہے اور اب فلسطینیوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ اپنے وطن واپس جائیں گے، کیونکہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے اور اس وطن پر کسی ایسی قوم کو حق حاصل نہیں کہ جسے دنیا کے دوسرے ممالک سے لا کر اس سرزمین پر قابض کر دیا گیا ہو، جیسا کہ 1948ء اور اس سے قبل کیا گیا تھا، بہرحال فلسطینیوں کا فیصلہ ہے کہ وہ ہر صورت سرزمین فلسطین کو واپس لوٹیں گے، وہ تمام فلسطینی کہ جنہیں صیہونیوں نے ان کے وطن، گھروں اور ان کی زمینوں اور کھیتوں سے بے دخل کرکے نکال باہر کیا ہے اور اب انہی فلسطینیو کا اعلان ہے کہ وہ اپنے وطن لوٹ رہے ہیں اور دو برس قبل کی بات ہے کہ فلسطینیوں نے ٹھیک یوم نکبہ کے روز ایک ایسی کوشش لبنان سے ملحقہ فلسطین کی سرحد پر کی تھی کہ جہاں صیہونی افواج کا قبضہ ہے، لیکن اس برس فلسطینیوں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ ”یوم نکبہ” کو ”یوم واپسی” کے طور پر منائیں گے اور ان کا ایک ہی نعرہ ہوگا ”منزل فلسطین۔”

جی ہاں! ہمارا بھی نعرہ یہی ہے جو فلسطینیوں کا ہے، ”منزل فلسطین” ”یوم نکبہ یعنی یوم واپسی”، دنیا بھر کے باضمیروں کو چاہئیے کہ وہ فلسطینیوں کی اس مہم اور اس مقصد کو زیادہ سے زیادہ اپنی حمایت سے کامیاب بنانے کی کوشش کریں، تاکہ فلسطین سے بے گھر کئے جانے والے لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے وطن واپس لے جانے
میں مدد گار ثابت ہوسکے، کیونکہ فلسطین، فلسطینیوں کا وطن ہے، اور تمام وہ فلسطینی کہ جو دنیا کے کسی بھی ملک میں جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں، فلسطین لوٹ آئیں اور اسی طرح یہ تمام شدت پسند یہودی (صیہونی) جس ملک سے بھی فلسطین لائے گئے تھے، واپس اپنے ممالک کی طرف پلٹ جائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button