مضامین

عاشور کے سانحے اور کربلا کی تاریخ کے دو صفحے ہیں ۔ حماسہ حسینی از شہید مرتضیٰ مطہری

shiitenews shaheed murtaza mutheriعاشور کے سانحے اور کربلا کی تاریخ کے دو صفحے ہیں ۔ایک صفحہ سفید اور نورانی ہے جب کہ دوسرا صفحہ سیاہ اور تاریک ہے،دونوں صفحوں کی مثال نہیں ملتی۔کربلا کی تاریخ کاوہ سیاہ اور تاریک صفحہ کہ جس میں ہمیں صرف بے مثال جرم و گناہ رنظر آتا ہے ہم جب اس صفحہ پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس میں بے گناہوں کا قتل دیکھتے ہیں

،جوانوں اور دودھ پیتے بچوں کا قتل اور گھوڑوں کی ٹاپوں میں لاشوں کی پامالی دکھائی دیتی ہے ، انسان کو پانی نہ پلانا عورتوں اور بچوں کو کوڑے مارتے ہوئے اور قیدیوں کو بے کجاوہ اونٹوں پر سوار کراتے دیکھتے ہیں ہیں۔اس تا ریک صفحے کا ہم جب بھی مطا لعہ کرتے ہیں تو صرف انسان کا جرم اور مر ثیہ دیکھتے ہیں یہ صفحہ جرائم سے بھرا پڑا ہے جس کی وجہ سے انسانیت کا سر جھکا ہوا ہے او ر وہ اپنے آپ کو اس آیت کا مصداق پاتی ہے کہ :’’فر شتو ں نے پوچھا کہ اے پر وردگار ! کیا تو ایسے کو مقر ر کرنے والا ہے جو زمین پر فساد کرے اور خون بہائے جبکہ ہم تیر ی حمد و ثنا ء کرتے ہیں۔
تو کیا عاشور کی تاریخ میں صرف یہی صفحہ ہے؟ کیا صرف مرثیہ ہے؟ فقط مصیبت ہے اور دوسری کوئی چیز نہیں ہے؟ ہماری غلطی یہی ہے اس تا ریخ کا ایک اور صفحہ ہے جس میں کوئی جرم نہیں ہے المیہ نہیں ہے بلکہ حماسہ ہے،فخر او ر روشنی ہے، حقیقت اور انسانیت کا جلوہ ہے ،حق پرستی کی چمک دمک ہے ، جس میں ہیرو امام حسین علیہ السلام ہیں ، یہ وہ صفحہ ہے جس پر بشریت ناز کرتی ہے،فرشتو ں کی وہ جماعت جو صرف سیاہ صفحے کو دیکھ رہی تھی خدا سے یہ سوال کر بیٹھی کہ تو زمین پر ایسے مقرر کرنا چاہتا ہے جو فساد برپا کریں اور خون بہائیں ؟ اور خدا نے اُن کے جواب میں فرمایا تھا :انی اعلم مالا تعلمون: جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ یہ اس روشن صفحے کی طرف اشارہ ہے
ہم کربلا کے سانحے کا اس سیا ہ صفحے کے نقطہ نظر سے کیوں مطالعہ کریں ہمیشہ کربلا کے جرائم کیوں گناتے جائیں؟ہم ہمیشہ حسین ابن علی علیہ السلام کے نا م سے ان نعروں کوکیو ں نسبت دیں اور کیوں لکھیں جو عاشورہ کے تاریک صفحے سے حاصل کیے جائیں؟ہم اس قصے کے روشن صفحے کا مطالعہ کم کیوں کرتے ہیں جبکہ اس داستا ن کا حماسی پہلو اسکے جرمیہ پہلو سے سو گنا بھاری ہے اور اسکی چمک دمک اُس کی تاریکی سے کئی گنا زیادہ ہے۔ شہید تشیع مر تضیٰ مطہری مزید لکھتے ہیں کہ ہمیں یہ ماننا چاہیے کہ حسین ابن علی علیہ السلام کے دشمن وہ بھی ہیں جو اس تاریخ کا صرف ایک ہی صفحہ پڑھتے ہیں دوسرا نہیں پڑھتے ۔امام حسین علیہ السلام کے وہ لوگ بھی قاتل ہیں جنہوں نے اس تاریخ کے مقصد میں تحریف اور تبدیلی کر دی ہے اور کر رہے ہیں۔ کس قاتل یا کن قاتلوں نے حضرت امام حسین علیہ السلام پر دوسری شکل میں وار کیاکہ حسین ابن علی علیہ السلام کے مقصد میں ہی تحریف کر ڈالی اور وہی خرافات جو عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کہتے ہیں، حسین ابنِ علی علیہ السلام کے متعلق بھی کہہ اٹھے کہ امام حسین علیہ السلام نے اس لیے جان دی کہ امت ک گناہوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیں۔ یعنی ہم گناہ کریں اور چین سے رہیں ۔امام حسین علیہ السلام اس لیے قتل ہوئے کہ اس وقت گنہگارکم تھے تو زیادہ ہو جائیں۔ لہٰذا اس تحریف کے بعد سوائے اس کے اور کوئی صورت ہی نہیں رہ گئی تھی کہ ہم اس سانحہ کا صرف ظلم وستم والا باب پڑھتے رہیں۔صرف مرثیہ ہی دیکھتے رہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سیاہ صفحہ نہ دیکھا جائے۔ دیکھا جائے ضرور دیکھا جائے بلکہ خوب پڑھا بھی جائے، البتہ یہ مرثیہ ونوحہ حماسہ کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے ۔حماسہ یعنی وہ چیز جو روح کوتحریک دے اوراسے جوش میں لائے۔ حسین علیہ السلام کا سوگ ہمیشہ زندہ رہنا چاہیے ، خود پیغمبرِاکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سفارش ہے اور آئمہ اطہار علیہ السلام نے بھی اس کی وصیت کی ہے۔لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر ہمیشہ آنسو بہاتے رہنا چاہیے لیکن ایک ہیرو کے سوگ کے طور پر آنسو بہانے چاہئیں۔ورنہ ایک بیچارے مجبور اور مظلوم پر رونا کیا؟ مجبور اور بے کس کیلئے پوری قوم کا رونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ حسین ابنِ علی علیہ السلام روشن صفحے کے ہیرو ہیں اور ہیرو کے سوگ میں روئیے تاکہ آپ اپنے اندر ہیروکے جذبات پیدا کر سکیں تاکہ ہیرو کی روح کا ایک عکس آپ کی روح پر پڑے اور آپ میں بھی کسی حد تک حق اور حقیقت کے بارے میں غیرت اور حمیت پیدا ہو سکے۔آپ بھی انصاف طلب ہو سکیں۔ آپ بھی ظلم اور ظالم سے جنگ کریں۔آپ بھی آزادی کے طلبگار ہوں۔ آزادی کے احترام کے قائل ہوں۔ آپ کو بھی یہ خیال آئے کہ عزتِ نفس کیا چیز ہوتی ہے؟ شرافت اور انسانیت کیا ہوتی ہے؟ کرامت یعنی بزرگی اور عظمت کسے کہتے ہیں؟جب ہم حسینی تاریخ کا روشن صفحہ پڑھ لیں گے تب ان کے سوگ کے پہلو سے فائدہ اٹھاسکیں گے۔ورنہ بیکار ہو گا
حماسہ حسینی از شہید مرتضیٰ مطہری

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button