پاکستانی شیعہ خبریں

شہید سعید حیدر زیدی کی شہادت بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے، مقررین

shaheed saeed haiderامامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کراچی ڈویژن کے رکن ذیلی نظارت، ادارہ دارالثقلین کے بانی سربراہ اور معروف اسکالر سید سعید حیدر زیدی شہید کے چہلم کی مناسبت سے ایک تعزیتی اجتماع مسجد و امام بارگاہ شاہ کربلا رضویہ سوسائٹی کراچی میں منعقد کیا گیا۔ اجتماع کا آغاز معروف قاری قرآن جناب فرمان علی نے تلاوت قرآن مجید سے کیا۔ اجتماع سے مرکزی صدر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان برادر اطہر عمران، مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی شوریٰ عالی کے سربراہ حجة السلام مولانا شیخ حسن صلاح الدین، فرزندِ شہید برادر صادق زیدی، سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن مولانا سید صادق رضا تقوی، پروفیسر ڈاکٹر زاہد علی زاہدی، مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ، مولانا سید محمد علی تقوی، مولانا سید شہنشاہ حسین، مولانا سید باقر زیدی، برادر میثم رضوی نے خطاب کرتے ہوئے شہید کے افکار و خدمات پر روشنی ڈالی جبکہ دستہ امامیہ کے صاحب بیاض برادر عاطر اور برادر میثم نے ترانہ شہادت پیش کئے۔ اجتماع کے موقع پر برادر سلمان نے شہید کے ادارہ دارالثقلین کے جانب سے کتاب نبوت کا تعارف پیش کیا جو کہ شہید سعید اپنی زندگی کے آخری ایام میں اشاعت کیلئے تیار کرچکے تھے۔ اجتماع میں آئی ایس او پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے تیار کردہ شہید سعید حیدر زیدی کی زندگی پر مبنی ایک ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔

اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی مرکزی شوریٰ عالی کے سربراہ حجة السلام مولانا شیخ حسن صلاح الدین نے کہا کہ شہید سعید انتہائی فرض شناس انسان تھے۔ شہید نے زمانے کے تقاضوں کو پورا کیا اور ان تقاضوں سے ملت کو ہم آہنگ کرنے کیلئے سرگرم عمل رہے۔ شہید نے مادی و اقتصادی فکروں سے آزاد ہوکر نظریاتی بنیادوں پر جدوجہد کی اور علم و فکر کو امانت الٰہی سمجھتے ہوئے قوم تک پہنچانے کی بے لوث کوشش کرتے رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ شہید نے معاشرے میں رائج بدعتوں کی علم کے اسلحہ سے خاتمہ کیلئے تا شہادت کوشش کی۔ شہید سعید رسمی طور پر تو حوزہ علمیہ سے فارغ التحصیل نہیں تھے مگرحوزہ ہائے علمیہ سے فارغ التحصیل علماء سے بڑھ کر علمی و فکری جدوجہد کی۔ شہید سعید نے ثقافتی و فکری میدانوں میں وہ خدمات سر انجام دیں جو بڑے بڑے مفکر بھی نہ کر سکے۔ انہوں نے اس راہ میں اپنے وجود کے سرمایہ تک کو لٹا دیا اور منزل شہادت پر فائض ہوئے۔

مولانا حسن صلاح الدین نے کہا کہ ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ شہید سعید حیدر و شہید آغا آفتاب جعفری و شیعہ نسل کشی پر ملت کے خواص و تنظیمیں مل کر اقوام متحدہ سمیت پاکستان میں قائم غیر ملکی سفارت خانوں و قونصل خانوں، انسانی حقوق کیلئے آواز بلند کرنے
” شہید کے دوستوں، عقیدت مندوں کو چاہئیے کہ جس طرح شہید معاشرے میں اپنی فعالیت دکھا رہے تھے وہ بھی سرگرم ہوں، شہید کے کاموں کو آگے بڑھائیں تاکہ شہید کا جو حق ان پر ہے وہ اس اسے ادا کر سکیں ورنہ صرف نام لینے سے شہید کی خدمات و احسانات کا حق ادا نہیں ہوگا۔ “
والی تنظیموں اور دیگر متعلقہ عالمی اداروں کو مذمتی قراردادیں پیش کرتیں چاہے اس کا کوئی نتیجہ نظر آتا یا نہیں مگر ہم یہ کام کرنے میں ناکام رہے یا عملاََ کوشش ہی نہیں کی۔ اس کام کی ضرورت اس لئے ہے کہ حکومت عوام کے تحفظ میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ شہید کے دوستوں، عقیدت مندوں کو چاہئیے کہ جس طرح شہید معاشرے میں اپنی فعالیت دکھا رہے تھے وہ بھی سرگرم ہوں، شہید کے کاموں کو آگے بڑھائیں تاکہ شہید کا جو حق ان پر ہے وہ اس اسے ادا کر سکیں ورنہ صرف نام لینے سے شہید کی خدمات و احسانات کا حق ادا نہیں ہوگا۔

مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان اطہر عمران نے کہا کہ شہید سعید حیدر کی شہادت سے جہاں ملت تشیع پاکستان ایک عظیم مفکر و استاد سے محروم ہوئی ہے وہاں آئی ایس او پاکستان ایک مرکز تربیت سے محروم ہوگئی۔ شہید سعید حیدر حقیقاََ عارف شہید حسینی و امام خمینی تھے۔ شہید فکری و علمی اعتبار سے ملت تشیع کے اندر ایک ستون کی حیثیت رکھتے تھے۔ ان کی شہادت سے جو خلاء پیدا ہوا ہے اسے پورا کرنا پوری ملت کیلئے بھی ممکن نہیں۔ شہید شخصیات کے بجائے نظریات کے گرد گھومنے کے قائل تھے اور کوشاں تھے کہ عوام و خواص بھی اس روش کو انفرادی و اجتماعی کاموں و زندگی میں مدنظر رکھیں۔ مرکزی صدر آئی ایس او پاکستان نے کہا کہ جس طرح ماضی میں ہم قائد شہید عارف الحسینی و شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی و دیگر حماسی شخصیات کی معرفت ان کی زندگی میں حاصل نہیں کرسکے، اسی طرح شہید سعید حیدر کی بھی صحیح معرفت نہیں رکھ سکے اور مملکت خداداد پاکستان میں عالمی دہشت گرد امریکا و صیہونیت اسرائیل اور اس کے نمک خوار مقامی ایجنٹ جو ہم سے زیادہ ان شخصیات کی اہمیت و معرفت رکھتا تھا اور ان شخصیات کا مقابلہ کرنے میں ناکام تھا، انہوں نے ان شخصیات کو نشانہ بنا کر شہید کردیا اور ہم ان شخصیات کی نہ تو معرفت پیدا کرسکے اور نہ ہی تحفظ کرنے میں کامیاب ہو سکے۔ لہٰذا شہید سعید حیدر زیدی کے قتل میں ملوث امریکا، اسرائیل اور ان کے مقامی ایجنٹوں نے ملت تشیع پاکستان سے اتحاد بین المسلمین کے عظیم داعی و استعمار و اسکتبار مخالف بہادر استاد چھین لیا۔ ہمیں چاہئیے کہ ان شخصیات کی اہمیت و معرفت کو ان کی زندگی میں ہی درک کریں اور ان ک
ا تحفظ کرنے کی کوشش کریں اور ان کی رہنمائی میں الٰہی راہ میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔

سیکریٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن مولانا سید صادق رضا تقوی نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید سعید حیدر نے ایسی زندگی گزاری کہ سعید دنیا و آخرت کے درجہ پر فائض ہوئے۔ ایک ایسے وقت میں کہ جب شہید قائد عارف حسینی کی شہادت ہوئی اور معاشرے خصوصاََ تنظیموں اور تربیت میں رابطے کا فقدان پیدا ہوا، شہید سعید حیدر نے اس رابطے کو دوبارہ استوار کرنے کیلئے انتہائی بے لوث کوشش کیں اور اسے دوبارہ برقرار کیا۔ شہید سعید نے خصوصاََ جوانوں کو صحیح اسلامی تربیت سے بہرہ مند کیا۔ انہوں نے نشر و اشاعت کے ذریعے علماء کے وجود کو معاشرے کے درمیان زندہ رکھا اور اس کے ساتھ ساتھ علماء، معاشرے اور عوام کے درمیان خلیج کو ختم کیا۔ شہید سعید حیدر نے تصنیف، تالیف و ترجمہ جیسے دشوار کاموں کو جہاد ثقافتی کی مانند انجام دیا۔ مولانا صادق تقوی نے کہا کہ شہید کے ورثا خصوصا نظریاتی ورثا کو چاہئیے کہ اس سفر
” ایک ایسے وقت میں کہ جب شہید قائد عارف حسینی کی شہادت ہوئی اور معاشرے خصوصاََ تنظیموں اور تربیت میں رابطے کا فقدان پیدا ہوا، شہید سعید حیدر نے اس رابطے کو دوبارہ استوار کرنے کیلئے انتہائی بے لوث کوشش کیں اور اسے دوبارہ برقرار کیا۔ “
کو مشن و مقصد و ہدف کو جاری رکھیں اور شہید کے الٰہی ارادوں و خواہشات کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔

پروفیسر ڈاکٹر زاہد علی زاہدی نے اپنے خطاب میں کہا کہ حوزہ ہائے علمیہ سے علمی شخصیات، آیت اللہ عظام، دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں و مجاہد شخصیات کی جانب سے شہید سعید حیدر کی شہادت پر موصول ہونے والے پیغامات اس بات پر دلیل ہیں کہ ان پر شہید سعید کی علمی و فکری خدمات و شخصیت واضح تھی مگر ہم پاکستان میں شہید کو شخصیت کو درک کرنے میں غافل رہے یہاں تک کہ اس نعمت خداوندی سے کوتاہی کے مرتکب ہونے پر سزاوار ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی اس نعمت کو ہم سے واپس چھین لے اور یوں ہم اپنی غفلت و لاپرواہی و کوتاہی کے باعث اس عظیم نعمت الٰہی سے محروم کردیئے گئے۔ پروفیسر زاہدی نے مزید کہا کہ جس طرح ہم سے شہید قائد عارف الحسینی کی شخصیت تا شہادت پوشیدہ رہی اسی طرح شہید سعید کی شخصیت پوشیدہ رہی اور لوگ کہتے رہ گئے کہ اتنی بڑی شخصیت ہمارے درمیان زندگی بسر کر رہی تھی اور ہم لا علم رہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں جہالت کے باعث اہل علم شخصیات اوجھل رہا کرتی ہیں کیونکہ جہالت زدہ معاشرے میں ان کی قدر و قیمت نہیں ہوا کرتی۔ ان کے قریبی افراد تو ان سے غافل رہتے ہیں مگر دشمن اسلام ان کی بھرپور شناخت رکھتا ہے اور ان شخصیات کو راستے سے ہٹانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ شہید سعید کی شہادت عالمی استعمار امریکا و صہہونیت اسرائیل کی بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے کیونکہ یہ صدی تشیع کی صدی ہے، تشیع نظریاتی حوالے سے تاریخ میں اپنے عروج پر ہے اسی لئے دشمنان اسلام پوری دنیا میں اہل علم و دانش کو راستے سے ہٹا رہا ہے اور شہید سعید حیدر کی شہادت اسی کا تسلسل ہے۔ چونکہ تشیع بہت تیزی سے اپنے عالمی ہدف کی جانب بڑھ رہی ہے اور تشیع کی ترقی کو روکنے میں دشمنان اسلام ناکام ہے اس لئے وہ اس قسم کی شخصیات کو نشانہ بنا رہا ہے۔ لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ شہید سعید جیسی شخصیات ہمارے درمیان زندہ رہیں تو ہمیں چاہئیے کہ ان کے کاموں کو جاری رکھیں۔ ضرورت ہے کہ نظریاتی بنیادوں پر کام کو انجام دیں یعنی خط ولایت پر کاموں کو جاری کریں اور عہد کریں کہ اس راہ میں کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے جیسا کہ شہید سعید حیدر اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں اس عہد پر تا شہادت قائم رہے۔

مولانا ڈاکٹر عقیل موسیٰ نے اپنے خطاب میں کہا کہ شہید سعید حیدر ایک دیندار انقلابی تھے، وہ صرف انقلابی نہیں تھے کہ جیسے اس قسم کے دینداری کے بغیر انقلابی افراد ہمیں معاشرے میں جا بجا دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک ماتمی عزادار تھے۔ وہ ماتمداری کو بہت اہمیت دیتے تھے اور تاکید بھی کرتے تھے اس لئے ان کے کراچی کی کئی معروف ماتمی انجمنوں و نوحہ خوانوں و شخصیات سے قریبی مراسم تھے۔ شہید سعید معاشرے میں ایک علمی جہاد کے قائل تھے، اس لئے وہ نشر و اشاعت میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور سرگرم عمل تھے۔ اس علی جہادمیں ملسل مصروف عمل رہے۔ وقت شہادت بھی ان کے پاس موجود وہ صفحات جن پر سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے اقوال تحریر تھے، پر لگا ہوا شہید کا خون ان کے علمی جہاد کا گواہ ہے۔

مولانا سید محمد علی تقوی نے شہید کے حوالے اپنے
” شہید سعید کی شہادت عالمی استعمار امریکا و صہہونیت اسرائیل کی بین الاقوامی سازش کا حصہ ہے کیونکہ یہ صدی تشیع کی صدی ہے، تشیع نظریاتی حوالے سے تاریخ میں اپنے عروج پر ہے اسی لئے دشمنان اسلام پوری دنیا میں اہل علم و دانش کو راستے سے ہٹا رہا ہے اور شہید سعید حیدر کی شہادت اسی کا تسلسل ہے۔ “
خطاب میں کہا کہ شہید سعید حیدر کا تعلق اس قبیلہ سے ہے کہ جو پوری زندگی تا شہادت اللہ سے کیے ہوئے عہد و پیمان پر قائم و دائم رہے اور اس عہد و پیمان کے مطابق مردانہ وار زندگی گزارتے ہوئے درجہ شہادت پر فائض ہو گئے۔ شہید نے ہمیشہ تربیت پر توجہ دی، وہ ہمیشہ کہتے تھے کہ راہ خدا پر گامزن افراد و تنظیمیں اپنی دینی، اخلاقی، فکری، نظریاتی و سیاسی تربیت پر انتہائی توجہ دیں صرف نعروں سے فرائ
ض ادا نہیں ہونگے اور نہ کام چلے گا۔ ان کی خواہش تھی کہ ملت کی قیادت کے پاس اجتماعی لائحہ عمل، مقصد و ایجنڈا ہونا چاہئیے۔ انہوں نے کہا کہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ شہید سے وابستہ افراد ان کی راہ و روش پر زندگی استوار کرتے ہوئے ان کی الٰہی ذمہ داریوں کو سنبھالیں۔

برادر میثم رضوی نے شہید کے علمی راہ و روش کے حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شہید سعید حیدر ریاکاری کے خطرے سے انتہائی محتاط رہتے تھے اور کبھی بھی اپنی علمی و تحقیقی کاموں کے حوالے انتھک محنت کا تزکرہ نہیں کرتے۔ ایک بار بہت زیادہ اصرار کرنے پر انہوں نے صرف اتنا بتایا کہ ان کی کوشش رہتی تھی کہ روزانہ شب بھر میں 200 سے زائد تحریروں کا جائزہ لیتے، ان میں سے 10 سے 12 تحریروں کا انتخاب کرکے ان کا دقت کے ساتھ مطالعہ کرتے اور ان میں سے جو نکات پاکستانی قوم کیلئے زیادہ سود مند ہوتے انہیں ترجمہ کرکے مختلف ذرائع سے قوم تک پہنچانے کی کوشش کرتے۔

شہید سعید حیدر کے کمسن فرزند سید صادق زیدی نے اجتماع میں شریک تمام علماء کرام، دوستان شہید، مومنین و مومنات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان سے شہید کی راہ کو جاری و ساری رکھنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہم بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے انتہائی حساس تھے اور بہت زیادہ تاکید اور رہنمائی کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر ہم اپنی صحیح اسلامی تربیت سے غفلت کریں گے تو اس ایک نقصان تو خود ہمیں ہو گا شاید کہ اس کا ازالہ ممکن ہو سکے مگر اس غفلت کو جو نقصان اسلام کو ہوگا اس کا ازالہ ممکن نہیں۔ اس لئے ہمیں اپنی تعلیم و تربیت پر انتہائی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تعلیم و تربیت کے حوالے سے وہ کسی قسم کی بھی کوتاہی و غفلت برداشت نہیں کرتے تھے۔ غلطیوں پر رہنمائی کرتے۔ مستقبل کے حوالے سے بھی وہ ہمیشہ ہم بہن بھائیوں کی رہنمائی کرتے رہتے تھے۔ ان کی روش تھی کی ہمیں جائز تفریح کے مواقع بھی فراہم کرتے رہتے تھے اور خود بھی ہمارے ساتھ شریک رہتے۔ حج و زیارات کے ہمیشہ مشتاق رہا کرتے تھے اور ہمیں بھی زیارات پر ساتھ لے کر گئے تھے۔ اس سال بھی ایام عزا میں ہمیں اربعین پر زیارات کیلئے کربلا لے جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ وہ مسکراتے ہوئے درجہ شہادت پر فائض ہوئے اور اسی مسکراتے چہرے کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں حاضر ہوئے۔

اجتماع میں آئی ایس او پاکستان کراچی ڈویژن کی جانب سے تیار کردہ شہید سعید حیدر زیدی کی زندگی اور شہید کی زوجہ محترمہ کے انٹرویو پر مبنی ایک ڈاکیومنٹری بھی دکھائی گئی۔ آخر میں مولانا سید شہنشاہ حسین نے دعائیہ کلمات جبکہ مولانا سید باقر زیدی نے مصائب سید الشہداء علیہ السلام بیان کئے جس کے بعد دستہ امامیہ نے نوحہ خوانی و سینہ زنی کی۔ اجتماع کا اختتام دعاء سلامتی امام زمانہ عج کے ساتھ کیا گیا۔ اجتماع کے موقع پر شہید کے قائم کردہ ادارہ دارالثقلین کی جانب سے ادارے کی اب تک کی اشاعت شدہ کتب پر مبنی اسٹال بھی لگایا گیا جہاں ادارے کی کتب پچاس فیصد رعایت کے ساتھ دستیاب تھیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button