مضامین

دہشت گردی کے تسلسل کی ذمہ دار ۔۔۔۔۔ عدلیہ یا حکومت؟

suprem court parlemant16 نومبر2012ء کے اخبارات میں وفاقی کابینہ کووزیر داخلہ جناب رحمٰن ملک کی بریفنگ کے حوالے سے ان کا موقف ذکر کیاگیا کہ حکومت نے سینکڑوں دہشتگرد پکڑے مگر ججوں نے رہا کردئیے………
وزیر داخلہ کے اس موقف سے اتفاق ہے کہ امن و امان کے ذمہ دار اداروں نے اپنی جان ہتھیلی پہ رکھ کر خطر ناک دہشتگرد گرفتار کئے جنہیں عدالتوں نے کسی قانونی جواز کی بناء پر رہا کردیا ۔ دہشتگردی میں بلاشبہ بلا تفریق مسلک پاکستانی شہری نشانہ بنے اور امن و امان کے ذمہ دار اداروں کے افسران و اہل کاروں نے بھی قربانیاں دیں۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ سابقہ حکومتیں اور موجودہ حکومت اس امر کی جوابدہ ہے کہ سپریم کورٹ کی طرف سے دہشت گردوں کی ایک کثیر تعداد کو سزائے موت سنائے جانے کے بعداوررحم کی اپیلیں مسترد ہونے کے باوجود طویل عرصہ سے ایوان صدرنے رحم کی اپیلوں پر فیصلہ کیوں نہیں کیا؟ حکم قرآنی ہے کہ ’’ولکم فی القصاص حیاۃ….‘‘ یعنی قاتل کی موت کو معاشرہ کی زندگی سے تعبیر کیاگیا ہے کیونکہ جب ایک قاتل کو سزائے موت ملتی ہے تو دوسروں کیلئے باعث عبرت ہوتی ہے۔
یہ فطرت کا اٹل قانون ہے اور انسانی زندگیوں کے تحفظ کا الٰہی حکم ۔ ذاتی دشمنی کی بناء پر قتل کے مقابلہ میں دہشت گردی کہیں زیادہ بھیانک و سنگین جرم ہے جس میں ایک دہشت گرد متعدد بے گناہ افراد کا سفاک قاتل ہوتا ہے۔ ایسے دہشت گردوں کی رحم کی اپیل نمٹانے پر ایوان صدر کئی کئی سال لگادے تو دہشت گردی کیسے رکے گی؟
گزشتہ دنوں میانوالی جیل میں ایک قاتل کو سزادی گئی تو بعض مغربی حکومتوں نے بھی تنقید کی جوکہ صریحا ایک الٰہی حکم کے خلاف جسارت ہے۔اخباری اطلاعات کے مطابق صدر کے پاس رحم کی چھ ہزار اپیلیں فیصلے کی منتظر ہیں جن میں بیسیوں سفاک دہشت گردوں کی اپیلیں بھی شامل ہیں ۔واضح رہے کہ اسلام ہر صورت میں قاتل کی سزائے موت پر اصرار نہیں کرتا ۔ اس دینِ رحمت نے قاتل کی جان بخشی کیلئے کئی راستے تجویز کیے ہیں،صلح، خون بہا کی ادائیگی، معافی سے قاتل نہ صرف موت سے بلکہ قید سے بھی آزاد ہوسکتاہے۔ اگرچہ مذکورہ بالا ایسی تمام اپیلوں پر غیر ضروری تاخیر انصاف کی راہ میں رکاوٹ اور مقتولین کے غم زدہ ورثاء کے کرب و اذیت میں اضافہ کا باعث ہے لیکن دہشت گردی میں ملوث قاتلوں کو مزید چھوٹ دینا دہشت گردی کی بالواسطہ حوصلہ افزائی ہے جس میں آئے دن بے گناہ شہری و سرکاری اہل کار مارے جارہے ہیں۔ اگر الٰہی اور ملکی قانون کے تقاضوں کے عین مطابق ان دہشت گردوں کی رحم کی اپیلیں مسترد کرتے ہوئے ان کی سزاؤں پر عمل در آمد کیاجائے تو یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ دیگر بے گناہوں کی زندگیاں بچ جائیں گی۔
تحریراحمد علی جواہری

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button