پاکستانی شیعہ خبریں

مرجعیت تشیع کا امتیاز ہے، تشیع کیخلاف تکفیریوں کو تیار کیا گیا، علامہ ساجد علی نقوی

sajid naqviشیعت نیوز کے نمائندے کے مطابق فہم دین سمپوزیم سے خطاب کے دوران شیعہ علماء کونسل کے سربراہ نے سوال اٹھایا کہ معصوم جانوں سے کھیلنے والے یہ لوگ کون ہیں۔ ان کی فنڈنگ کہاں سے ہورہی ہے۔ ان کی منصوبہ سازی کون کر رہا ہے۔علامہ سید ساجد علی نقوی نے مدرسہ زینبیہ راولپنڈی میں جلسہ و فہم دین سمپوزیم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ مراکز علمی کی ذمہ داری ہے کہ اسلامی تہذیب کو عام کریں اور اسلامی اقدار کو اجاگر کریں۔ آج غیر اسلامی تہذیب مسلمانوں پر مسلط کرنے کے لئے یلغار کی جا رہی ہے۔ منظم و مرتب انداز میں اسلامی تہذیب کو عوامی سطح پر متعارف کروانے کی اشد ضرورت ہے۔ علماء و دینی مراکز اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریا ں ادا کریں۔ منظم تربیتی پروگرام کا فقدان ہے۔ ہمیں اخلاقی، سیاسی، تنظیمی پروگرام کا انعقاد کرکے عوام کی تربیت کرنا ہو گی۔ سربراہ ایس یو سی نے کہا سکول آف پالیسی اسٹڈیز میں اپنے خطاب میں کہا تھا کہ تشیع کے ہاں چند ارتکازی عقائد ہیں جن کی بدولت کوئی شخص تشیع میں داخل یا تشیع سے خارج ہو سکتا ہے۔ تشیع کے خلاف اس وقت پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ تشیع اور نصیریت کو آپس میں خلط ملط کیا جا رہا ہے۔ تشیع کا نصیریت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ مرجعیت تشیع کا امتیاز ہے۔ تشیع کے خلاف تکفیریوں کو تیار کیا گیا۔ ہمارے خلاف قانون سازی کرنے کی کوشش کی گئی، جسے ہم نے ناکام بنایا۔ اس وقت دو دینی پلیٹ فارم ایم ایم اے اور ملی یکجہتی کونسل کی سربراہی تشیع کے پاس ہے۔ اس وقت ملک میں بلیم گیم جاری ہے، اصل مسئلے سے لوگوں کی توجہ ہٹائی جا رہی ہے۔ نہیں بتایا جا رہا کہ معصوم جانوں سے کھیلنے والے یہ لوگ کون ہیں۔ ان کی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے۔ ان کی منصوبہ سازی کون کر رہا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ کرائے کے بازاری لوگ ہیں۔ ہم ان کی نسلوں کو جانتے ہیں۔ اصل دشمن وہ لوگ ہیں جو ان دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ انسانیت کے ان اصل دشمنوں کے خلاف کوئی بات کرنا گوارہ نہیں کرتا ہے۔ اس وقت ملک میں پولیس، رینجرز اور سکیورٹی ادارے بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ دہشت گرد دن بدن طاقتور ہو رہے ہیں۔ جدید ترین مہارتوں سے انہیں لیس کیا جا رہا ہے۔ قاتل پکڑنے کا ڈرامہ کیا جاتا ہے، مال خانوں میں موجود لوگوں کو نکال کر دکھایا جا رہا ہے۔ برصغیر کی عظیم الشان علماء کانفرنس ہم نے اسلام آباد میں منعقد کی۔ ایک عام کلرک سے لیکر صدر پاکستان تک حجت تمام کر چکے ہیں اور تمام باتیں ان تک پہنچا دی ہیں۔ اس وقت مسئلہ ریاست پر آ چکا ہے۔ ہم منتظر ہیں کہ سپریم کورٹ اس سلسلے میں کیا فیصلہ سناتی ہے۔ اس کے بعد ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنا دفاع خود کریں۔ میرے ملک میں مجھے بس سے اتار کر شناخت کرکے مارا جاتا ہے۔ ہم اسلام آباد میں بین الاقوامی پلیٹ فارم سے اپنی شناخت پیش کریں گے۔ ہمیں اس ملک میں عزاداری سنگینیوں کے سائے میں قبول نہیں ہے۔ ہم یہاں آزاد انداز میں عزاداری کرنا چاہتے ہیں، یہ ہمارا آئینی حق ہے۔ مرنے کے بعد دشمنیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ لیکن حسین ابن علی (ع) کے ساتھ وہ دشمنیاں نبھائی گئیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button