مضامین

کیا جماعت اسلامی صیہونی اسرائیل کو تسلیم کرکے امت مسلمہ کا حصہ تصور کرنیکی روش پر گامزن ہے؟

رپورٹ: ایس زیڈ ایچ جعفری

کیا جماعت اسلامی اپنے بانی مولانا مودودی اور مرحوم قاضی حسین احمد کے افکار سے انحراف کرتے ہوئے سابقہ امیر منور حسن کے دورِ امارت میں جماعت کے اندر نفوذ کرنے والی تکفیری سوچ کے باعث امریکہ کی ناجائز اولاد صہیونی اسرائیل کو تسلیم کرنے اور اسے امت مسلمہ کا حصہ تصور کرنے کی روش پر گامزن ہے؟؟؟؟؟؟؟ یہ سوال ہمارے ذہن میں اس وقت پیدا ہوا کہ جب ہم پہنچے جماعت اسلامی کراچی کے دفتر ادارہ نور حق، جہاں جماعت اسلامی سندھ کی میزبانی میں ملی یکجہتی کونسل سندھ کا سالانہ اجلاس ہو رہا تھا، جس کی صدارت کونسل کے سربراہ ڈاکٹر صاحبزادہ ابوالخیر محمد زبیر کر رہے تھے۔ جماعت اسلامی کراچی کے دفتر ادارہ نور حق میں منعقدہ اجلاس میں تمام اسلامی مکاتب فکر کی نمائندہ جماعتیں اور علماء و زعماء موجود تھے۔ اجلاس کا مرکزی ایجنڈا اتحاد امت، وقت کی ضرورت کے نام سے ترتیب دیا گیا تھا۔

اجلاس میں شریک تمام علماء اور نمائندہ شخصیات نے موجودہ حالات کے تناظر میں امت مسلمہ کے اتحاد و وحدت کی ضرورت پر زور دیا، تیسری دنیا سمیت امت مسلمہ میں تفرقہ، انتشار اور پراسرار قتل و غارتگری میں امریکہ اور اسکی ناجائز اولاد اسرائیل کو مورد الزام ٹہرایا گیا، جو روز اول سے افریقہ سے لیکر ایشیاء تک، ایشیاء سے لیکر مشرق بعید اور قریب تک تمام تر فسادات میں ان دونوں ظالم ممالک بشمول مغربی ممالک کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت و شواہد موجود ہیں، شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور ان تمام مشکلات کا حل امت مسلمہ کے اتحاد و وحدت میں قرار دیا گیا۔ لیکن اس وقت ہمیں انتہائی حیرت انگیز صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب ہم نے ملی یکجہتی کونسل سندھ کے اہم ترین اجلاس کے اسٹیج کے پیچھے آویزاں مرکزی بینر پر مقبوضہ فلسطین کے بجائے امت مسلمہ میں فسادات و تفرقہ کے بیج بونے والے شر مطلق اسرائیل کا نام لکھا ہوا دیکھا۔
 
اس اجلاس کی میزبانی جماعت اسلامی سندھ کے ذمہ تھی اور مرکزی بینر بھی انہیں کا تیار کردہ تھا، لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ نہ تو بینر بناتے وقت جماعت اسلامی کے معزز ذمہ داروں نے اس بات کا خیال رکھا اور نہ ہی اجلاس کے دوران دیگر جماعتوں کے نمائندگان نے اس افسوسناک کوتاہی کی طرف اشارہ کیا۔ دوران اجلاس بیچ میں جب مجلس وحدت مسلمین سندھ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید صادق رضا تقوی کو اظہار خیال کا موقع دیا گیا تو انہوں نے اپنی تقریر میں اس سنگین کوتاہی کی طرف شرکائے اجلاس کی توجہ مبذول کروائی، جس پر تمام شرکائے اجلاس حیرت زدہ رہ گئے۔

ہمارا خیال ہے کہ جماعت اسلامی پاکستان میں ایک انقلابی اسلامی جماعت ہونے کے ناطے ہوشیار رہے، کیونکہ جماعت اسلامی اپنے بانی مولانا مودودی تا مرحوم قاضی حسین احمد امت مسلمہ کے مظلوموں کا دفاع کرنے والی جماعت کا تاثر قائم کرچکی تھی، لیکن قاضی حسین احمد مرحوم کے بعد آنے والے مرکزی امیر منور حسن کے پراسرار اور خطرناک بیانات جن کی وجہ سے امت کی وحدت پارہ پارہ ہونے کو تھی، منجملہ ان بیانات میں سے ایک فرزند رسول اسلام (ص) حضرت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں ان کا متنازع بیان زبان زد خاص و عام ہوا، جس کے نتیجے میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں جماعت اسلامی کو کڑی تنقید کا نشانہ اور بدنامی کا سامنا پڑا، اسی طرح سابقہ مرکزی امیر منور حسن کا ایک اور بیان جس میں انہوں نے پاکستان کی مسلح افواج کے ان شہداء کو جنہوں نے اسلام و پاکستان دشمن طالبان دہشت گردوں کے مقابلے میں جانیں قربان کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا تھا، ان کی شہادتوں پر تنقید کرتے ہوئے انہیں ہلاک قرار دیا جبکہ طالبان دہشتگردوں کے سرغنہ حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دیا، جس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہ پاکستانی شہریوں جن میں عورتیں اور معصوم بچے بھی شامل ہیں نیز افواج پاکستان کے جرنیلوں سے لیکر سپاہیوں تک کے خون سے رنگے ہوئے تھے۔ منور حسن کے انہیں بیانات کی وجہ سے وہ جماعت اسلامی کی امارت پر دوبارہ فائز نہ ہوسکے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ملی یکجہتی کونسل سندھ کے اجلاس کے مرکزی بینر پر مقبوضہ فلسطین کے بجائے اسرائیل کا نام لکھا جانا سابقہ مرکزی امیر منور حسن کے دور میں جماعت اسلامی کے اندر نفوذ کرنے والی تکفیری سوچ کا شاخسانہ ہے، اس حوالے سے امید کی جاتی ہے کہ موجودہ مرکزی امیر سراج الحق اور جماعت اسلامی کے حقیقی نظریاتی وارثین حساسیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے اندر نفوذ کرنے والی تکفیری سوچ کے خاتمہ کیلئے سنجیدہ اقدامات کریں گے، تاکہ امت مسلمہ کے اندر جماعت اسلامی کی کھوئی ہوئی ساکھ دوبارہ بحال ہوسکے اور حقیقی معنوں میں امت مسلمہ کے مختلف مسالک کے درمیان اتحاد و وحدت کیلئے اپنا متوقع کردار ادا کرسکے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button