مضامین

طالبان پاکستان سے بوکو حرام تک (خصوصی تحریر)

تحریر: محمد علی نقوی
 
نائیجیریا میں سرگرم بوکو حرام نامی مسلح گروہ نائیجیریا کی تمام چھتیس ریاستوں میں اس طرح جدید تعلیم پر پابندی کا مطالبہ کر رہا ہے جیسا پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ٹی ٹی پی والے لڑکیوں کے اسکولوں کو بموں سے اڑا کر کر رہے ہیں۔ بوکو حرام نامی اس گروپ نے حال ہی میں کالج کی دو سو پچاس طالبات کو اغوا کیا ہے اور اس گروہ کے سربراہ نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا ہے کہ ان لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی بجائے شادی کرنا چاہیے تھی، لہذا اب بوکو حرام تنظیم ان لڑکیوں کو لونڈیاں بنا کر دوسرے ملکوں کو فروخت کرے گا۔ اس واقعہ کے سامنے آتے ہی عالمی سطح پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ سب سے زیادہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ سب کچھ اسلام اور شریعت کے نام پر کیا گیا ہے، جس سے اسلام دشمن طاقتوں کو اس بات کا موقع ملا ہے کہ وہ جی بھر کر اسلام کو بدنام کریں۔ 

افریقہ کے مختلف ملکوں میں اس وقت مختلف ناموں سے انتہا پسند گروہ سرگرم عمل ہیں، جو اسلام کے نام پر ایک طے شدہ منصوبے کے تحت اسلام کا چہرہ مسخ کرنے کے لئے مختلف اقدامات کر رہے ہیں۔ یہ گروہ اسلام کے نام پر دہشتگردی کی کارروائیاں انجام دیتے ہیں اور اسلام دشمن میڈیا کو ایسا مواد فراہم کرتے ہیں، جس سے اسلام فوبیا کا ماحول تیار کیا جاتا ہے۔ اسلام کی بہتریں تعلیمات اور احکام کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے دین اسلام کی طرف بڑھتی ہوئی غیر مسلموں کی توجہ کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان گروہوں میں ایک بوکو حرام نامی مسلح گروہ بھی ہے، جنہیں دین اسلام کی بنیادی تعلیمات سے بھی آشنائی نہیں ہے اور انہیں رسول خدا کی سیرت کا بھی کوئی علم نہیں اور وہ اسلام کے مقدس نام سے وحشت و بربریت کا بازار گرم کئے ہوئے ہے۔

بوکو حرام نامی مسلح گروہ اپنے جرائم کا جواز ڈھونڈنے کے لئے لڑکیوں کے اسکول جانے کو مغربی تعلیم قرار دیکر اسے شرعاً حرام سمجھتا ہے، حالانکہ آج سے چودہ سو سال پہلے قرآن نے والقلم کہہ کر قلم کی قسم اٹھائی ہے اور ہر مسلمان مرد اور عورت پر تعلیم کے حصول کو فرض قرار دیا تھا، پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ بوکو حرام اور اس جیسے دوسرے تکفیری گروہوں کو قرآنی تعلیمات اور سیرت نبوی کا کچھ بھی علم نہیں اور وہ اپنی قبیح حرکتوں سے اسلام کو بدنام کرنے میں مصروف ہیں۔ بوکو حرام گروہ دو ہزار دو میں نائیجیریا میں محمد یوسف کے ذریعے تشکیل پایا۔ محمد یوسف ڈیموکریسی اور سیکولر تعلیم کا مخالف اور وہابیت کا پیرو تھا اور ابن تیمیہ کے افکار و نظریات پر عمل پیرا تھا۔ ابن تیمیہ کے نظریات وہابیت کی بنیاد و اساس شمار ہوتے ہیں۔ محمد یوسف حتٰی زمین کے کروی اور گول ہونے کا منکر تھا۔ 

"بوکوحرام” "ہوسا” زبان میں "مغربی تعلیم حرام” کے معنی میں ہے۔ بوکو سے مراد "مکمل مغربی تعلیمات ہیں۔ جنھیں اس گروہ نے حرام قرار دے دیا ہے۔ اس گروہ کے افراد مغربی طرز تعلیم، مغربی تعلیمی مراکز، مغربی لباس اور مغربی تہذیب و ثقافت کو ناجائز سمجھتے ہیں۔  اور اس سلسلے میں انتہا پسندی اور بے بنیاد تعصب کا شکار ہیں۔ اس گروہ کے افراد نے زندگی کے بعض ضروری وسائل و امکانات کو بھی حرام قرار دے رکھا ہے۔ یہاں تک کہ موٹر سائیکل سواروں کے لئے ہیلمٹ لگانے کو بھی ناجائز سمجھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ان کے نظریات مغربی تعلیمات ہی نہیں بلکہ تمام  انسانی آداب و تعلیمات اور اصول زندگی سے الگ اور بالکل جدید اور نئے ہیں۔ 2009ء میں بوکو حرام گروہ کے بانی محمد یوسف کی ہلاکت کے بعد ابوبکر "شیخو” نے اس گروہ کی قیادت سنبھال لی اور اس کے بعد اس گروہ کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوگیا۔ اس گروہ کے سرغنہ ابوبکر شیخو نے رواں سال اپریل کے مہینے میں ایک اسکول سے  طالبات کے اغوا کے بعد اپنے ایک ویڈیو پیغام میں طالبات کے اغوا کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ان طالبات کے ساتھ لونڈیوں اور کنیزوں جیسا رویہ اختیار کیا جائے گا۔ اور ان کو زبردستی مردوں کے ساتھ بیاہ دیا جائے گا۔ اسی طرح ابوبکر شیخو نے یہ بھی کہا کہ وہ ان طالبات میں سے نو سال اور بارہ سال کی عمر کی دو لڑکیوں سے خود شادی کرے گا۔ 

اس تکفیری دہشت گرد کے اس گھناؤنے اقدام پر جو آشکارا طور پر شناختہ شدہ انسانی اور اسلامی اصول کے منافی ہے، یعنی سینکڑوں طالبات کو اغوا کرنا اور پھر ان کے ساتھ کنیزوں جیسا سلوک روا رکھنا، ایک ایسا اقدام ہے جس  پر  وسیع پیمانے پر ردعمل سامنے آنا ایک فطری امر ہے۔ دوسری جانب ابوبکر شیخو کی طرف سے ان ناشائستہ اور گھناؤنے اقدامات کو اسلام کی شریعت اور قانون خدا کے مطابق قرار دینے کا بے بنیاد دعویٰ، اس قدر ذلت آمیز تھا کہ اس سے دنیا بھر کے مسلمانوں کے دل بری طرح مجروح ہو‎ئے۔ اس بات کے ٹھوے ثبوت موجود ہیں کہ  اس طرح کے گروہوں میں ایسے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کا اسلام سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہے اور انہیں اسلامی تعلیمات کا معمولی ادراک بھی نہیں۔ ان میں عیسائی اور بت پرست افراد کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے، جو اسلام کے مقدس نام سے تشدد اور قتل و غارت کی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔

قابل افسوس بات یہ ہے کہ آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ وہابی اور تکفیری گروہ، اسلامی تعلیمات اور سیرت پیغمبۖر کے خلاف عمل کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان بھی کہ رہے ہیں۔ بوکو حرام بھی انہیں میں سے ایک گروہ ہے، یہ گروہ فرقۂ  وہابیت کے غلط نظریات کا نتیجہ ہ
ے۔ بوکو حرام گروہ اس وقت اسلام کے نام اور شریعت کے نام پر انسانیت کے خلاف جارحیت پر کمر بستہ ہے۔ یہ گروہ، دہشت گرد گروہ القاعدہ اور طالبان سے وابستہ ہے، جو افغانستان سے لے کر تمام عرب اور افریقی ممالک میں پھیلا ہوا ہے، اور اس قدر واضح ہے کہ "طالبان نائیجیریا کے نام سے بھی معروف ہوگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مغربی سرمایہ دار دنیا، افغانستان میں طالبان کی موجودگی اور ان کے استحکام کا باعث بنی۔ مغربی ممالک، طالبان کو وجود میں لاکر افغانستان پر اپنا کنٹرول اور قبضہ جمانے کے خواہاں تھے، اور ان کا مقصد حقیقی اسلام اور خاص طور سے ایران کے اسلامی انقلاب کا مقابلہ کرنا تھا۔ 

جبکہ بعض دیگر اسلامی اور حتی مغربی ممالک میں بھی طالبانزم کے پھیلنے سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ انتہا پسند گروہ، انہیں اور دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ دور حاضر میں امریکہ اور سعودی عرب تکفیری گروہوں سے شام، عراق، مصر اور یمن جیسے ملکوں میں بدامنی اور تشدد پھیلانے کے لئے استفادہ کر رہا ہے، لیکن یہ نہیں معلوم کہ یہ تکفیری انتہا پسند عناصر ان ملکوں میں اپنے مشن کی ناکامی کے بعد کہاں جائیں گے اور کہاں آشوب برپا کریں گے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تکفیری اور جمود کے شکار گروہوں کے دہشت گردانہ اور تشدد پسندانہ افکار اقدامات کے، آج کی مسلم جوان نسل پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا اس سے مسلم نوجوانوں اور خاص طور سے لڑکیوں اور عورتوں میں دین اسلام سے بدگمانی پیدا نہیں ہوگی۔؟
 
ایک ایسا شخص جسے دین اسلام کے بارے میں زیادہ آگاہی اور معلومات نہیں ہے، جب وہ ٹیلی ویژن پر نائیجیریا کے بوکو حرام یا شام میں النصرہ اور داعش جیسے تکفیری اور دہشت گرد گروہوں  کے سرکردہ رہنماؤں کی تقریریں سنے گا اور انھیں دیکھے گا تو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اسکے کیا جذبات ہونگے؟ نوجوان لڑکیوں کو اغوا اور انھیں حکم خدا سے فروخت کرنے کا اعلان کرنا، کیا اسلام سے متنفر کرنے کے مترادف نہیں ہے؟ اور یہ اقدامات، مغرب کے اسلام فوبیا کے منصوبے کی تقویت کا باعث نہیں بنیں گے؟ کیا اسلام جو دین رحمت ہے، وہی ہے جو تکفیری گروہ دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں؟ دور حاضر میں اسلام کے نام پر بعض انتہا پسند اور جمود کا شکار گروہ جو بدعتیں پھیلا رہے ہیں، وہ حقیقی اسلام کے منافی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے واقعی اور اصلی دشمن مسلمانوں کے روپ میں بیرونی دشمنوں کی خدمت انجام دے رہے ہیں اور دین اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا باعث بنے ہیں، اور اسلام کے بھیس میں یہ اسلام کے چہرے کو بگاڑ کر پیش کر رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسطرح کے انتہا پسند گروہوں کا مقابلہ آسان نہیں، لیکن اسکے لئے عزم بالجزم کی ضرورت ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے شیعہ اور سنی علماء کو چاہیے کہ وہ اس مسئلے پر خاموشی اختیار نہ کریں اور اسطرح کے گروہوں کے خلاف سنجیدہ اقدامات انجام دیں، ورنہ اس سے اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے اور بلاشبہ تاریخ ایسے علماء کو ہرگز معاف نہیں کرے گی، جن کے سامنے اسلام کے خوبصورت چہرے کو مسخ کیا جاتا رہا اور وہ مصلحتوں کا شکار رہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button