اعتدال پسند دینی جماعتوں کا سفرِ انقلاب (خصوصی تحریر)
تحریر: علامہ سبطین شیرازی
پاکستان کے اندر اگرچہ مسلکی بنیادوں پر سیاست نے قوم کو تقسیم کیا ہے، لیکن اس بنیاد پر سیاست کرنا کوئی جرم بھی نہیں کیونکہ پاکستان کے اندر مسلمان مختلف مسالک میں بٹے ہوئے ہیں، لیکن اگر اسلام کی بنیاد پر دینی جماعتیں میدانِ سیاست میں اتریں تو یہ ملک و قوم کیلئے مفید تر ہے۔ ایک وقت تھا جب علماء کرام سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دیتے تھے اور دین کو سیاست سے جدا سمجھتے تھے، لیکن وقت نے ثابت کر دیا کہ اگر دین سیاست سے جدا ہو تو واقعی چنگیزی کا راج ہوتا ہے۔ دین اسلام حکمرانوں کو ایک عادلانہ اور منصفانہ نظام کے تحت ہی عوام پر حکمرانی کرنے کا اختیار دیتا ہے اور یہ اسی صورت میں ہی ممکن ہے کہ جب دین شناس اور خدا پرست طبقات میدان سیاست میں وارد ہوں۔ ہمارے علماء کو چاہئے کہ وہ عوام الناس کو ان سیاسی طالع آزماؤں اور نام نہاد جمہوریت کے دعوے داروں کی چالوں سے آگاہ کریں، جو یہ کہتے ہیں کہ علماء اپنی مساجد یا مدارس تک محدود رہ کر دین کی خدمت کریں، سیاست کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔
اسلام کی تاریخ میں خلفائے راشدین کا ایک سیاسی پس منظر اور حکمرانی ہمارے سامنے بطور مثال موجود ہے، ہمیں تاریخ سے یہی شکوہ ہے کہ صالح اور متقی قیادت کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے ماضی میں ظالم اور جابر حکمران عوام کی گردنوں پر مسلط رہے ہیں۔ تمام اہل اسلام اس بات پر متفق ہیں کہ آخرکار اس کائنات کی حکومت صالحین کے ہاتھ میں آئے گی، جو اس ظلم سے بھری دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے اور اس کائنات پر رسول اللہ ﷺ کے آخری جانشین حضرت امام مہدی ؑ کی ایک وسیع و عریض عادلانہ اور منصفانہ حکومت قائم ہوگی۔ ایران میں جب رضا شاہ پہلوی کی حکومت تھی تو عوام مجبور اور بے بس تھے، ایرانی قوم اور ملکی معیشت پر اغیار کا مکمل کنٹرول تھا۔ ملک کے اندر امریکیوں کو ہر طرح کی من مانیاں کرنے کا اختیار حاصل تھا، ان کے کسی بھی جرم کی وجہ سے ان پر ایرانی عدالت میں مقدمہ چلانے کی اجازت نہیں تھی، لیکن جونہی انقلابِ ایران رونما ہوا تو مظلوم اور مجبور لوگوں کی داد رسی ہوئی، اغیار کا تسلط ختم ہوا، کمزور طبقات کو عزت ملی اور عوام کو عدل و انصاف میسر ہوا اور ایران نے ہر شعبے میں مثالی ترقی کی، اس کی وجہ ایران میں ایک صحیح اسلامی حکومت کا قیام تھا۔
اگر پاکستان کے اندر بھی ایک حقیقی اسلامی حکومت قائم ہو جائے تو ملک کے محروم طبقات کی داد رسی ہوسکتی ہے، لیکن اس سے مراد یہ نہیں کہ دین کے لباس میں ملبوس علماء ہی حکمران بنیں بلکہ نظامِ حکومت میں دین کی حقیقی روح کا زندہ ہونا مقصود ہے، اس کیلئے اعتدال پسند دینی جماعتیں بشمول حامی سیاسی جماعتیں مل کر ملک میں حکمرانی کیلئے ایک مشترکہ شیڈول ترتیب دے سکتی ہیں۔ اس وقت ملک کے اندر پاکستان عوامی تحریک، مجلس وحدت مسلمین اور سنی اتحاد کونسل کا اتحاد ملک کے دینی مستقبل کیلئے نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ ایک طرف پاکستان عوامی تحریک اور سنی اتحاد کونسل کے ساتھ کثیر تعداد میں اہل سنت حضرات وابسطہ ہیں اور ان جماعتوں کی اہل سنت میں مقبولیت دن بدن بڑھ رہی ہے تو دوسری جانب مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے اندر تمام تر شیعہ مسلمانوں کی نمائندہ جماعت بن کر ابھری ہے، جس نے ملت کیلئے ہر شعبے میں گراں قدر خدمات اور مقبول عام کام سرانجام دیئے ہیں۔ چناچہ اگر پاکستان کے بہتر مستقبل کے حوالے سے یہ کہا جائے کہ یہاں کی اعتدال پسند دینی جماعتیں اور ان کی حامی سیاسی جماعتیں باہم مل کر ملک کی باگ دوڑ سنبھا لیں تو اس سے پاکستان کا مقدر بدل سکتا ہے، بے جا نہ ہوگا۔
حالیہ دھرنوں کے باعث ملک کے اندر مجموعی طور پر جو فضاء قائم ہوچکی ہے، یہ نئے پاکستان اور پاکستان کے روشن مستقبل کا اشارہ ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ ملک کے اندر دیگر اعتدال پسند دینی جماعتیں بھی پاکستان عوامی تحریک کے کارواں میں شامل ہونے پر آمادہ نظر آتی ہیں۔ آئے دن معزز دینی شخصیات کا اس کارواں میں شامل ہونا ڈاکٹر طاہر القادری پر ایک بھرپور عوامی حمایت کا مظہر ہے۔ اسی طرح پاکستان تحریک انصاف کے کارواں میں شامل ہونے کیلئے کئی نامور سیاسی شخصیات پر تول رہی ہیں، جبکہ مجلس وحدت مسلمین کے قائد علامہ راجہ ناصر عباس نے اپنی ملت کے اندر بالخصوص اور پاکستانی عوام کے اندر بالعموم خاصی مقبولیت حاصل کی ہے اور شیعہ نوجوان انکی آواز پر لبیک کہتے دیکھائی دیتے ہیں۔
یہ فضا پاکستانی عوام کو ایک پیج پر لانے میں بہت مدد گار ثابت ہو رہی ہے اور ملک کے اند ایک قوم کا منظر دکھائی دے رہا ہے، لیکن وہ شدت پسند قوتیں جو پاکستان کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتیں، ناخوش ہیں۔ یہ وہ قوتیں ہیں جنہوں نے پاکستان کے اندر ہمیشہ مسلکی اختلافات کو گہرا کیا، جس کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی معرض وجود میں آئی اور پاکستان کے گلی کوچے، بازار پاکستانیوں کے ناحق خون سے رنگین ہوئے، لیکن یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ اسلام دین امن اور دین وحدت ہے، یہ بدامنی پھیلانے والے عناصر عالم اسلام کی نہیں عالم کفر کی خدمت کر رہے ہیں۔
چنانچہ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلکی اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر وسیع تر قومی و ملکی مفادات کی خاطر مشترکہ جدوجہد کو مزید تیز کیا جائے اور جن علاقوں میں انتہا پسندی اور دہشت گردی ملکی بنیادوں کو کمزور کر رہی ہے، اس کی بیخ کنی کیلئے پاک فوج کا بھرپور ساتھ دیا جائے اور پاکستان دشمن قوتوں
کو یہ پیغام دیا جائے کہ پاکستان کے غیور عوام اپنی افواج کے شانہ بشانہ ہیں، پاکستان کے حساس علاقوں کوئٹہ، گلگت بلتستان اور پارا چنار میں قیامِ امن کیلئے فوج کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں اور ایسی قوتوں کی حوصلہ شکنی کی جائے کہ جو اغیار کے اشارے پر پاک فوج اور اس کے حساس اداروں پر بے جا تنقید کر رہی ہیں۔ پاک فوج کا فرض بنتا ہے کہ وہ معاملات کو نئے تناظر میں سمجھنے کی حکمت عملی اختیار کرے، تاکہ آئندہ حکومت اور حساس اداروں کے تعلقات خوب سے خوب تر ہوں، جس کے باعث پاکستان اپنی اس منزل کو پہنچے جس کا خواب مفکرِ پاکستان علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے دیکھا تھا۔