مضامین

بحرین کا انقلاب اور نظریہ پاکستان (خصوصی تحریر)

تحریر: عرفان علی
 
میری نظر میں بحرینی عوام غزہ کے فلسطینیوں سے بھی زیادہ مظلوم ہیں کیونکہ غزہ پر ظلم کرنے والے جارح صہیونیوں کے خلاف سبھی بولتے ہیں۔ بحرینیوں پر مظالم ڈھانے والی امریکی صہیونی اتحادی بادشاہت کے خلاف کوئی نہیں بولتا۔ حیرت یہ ہے کہ علامہ اقبال کے ملک پاکستان میں بحرینی عوام کی بجائے وہاں کے بادشاہوں کے حق میں فضا ہموار کرنے کی سازش کی گئی۔ سامراج مخالف بھٹو کے داماد صدر آصف علی زرداری نے 17 اگست 2011ء کو بادشاہ حماد عیسٰی ال خلیفہ کی دعوت پر بحرین کا ایک روزہ دورہ کیا تھا۔ بحرین کا یہ بادشاہ 18 مارچ کو پاکستان کے دورے پر آیا اور چند معاہدے اور سمجھوتے کئے گئے۔۔ تفصیلات قومی اخبارات میں بیان کر دی گئی تھیں۔ زرداری صاحب کے دورہ بحرین کے بارے میں سرکاری خبر رساں ادارے کی خبر کے مطابق دونوں حکمرانوں نے کئی امور پر ’’مشترکہ‘‘ موقف اور خطے میں استحکام کے لئے کام کرنے پر اتفاق کیا تھا، یہی کچھ نواز شریف سے بادشاہی ملاقات کے بعد کہا گیا۔ اس پر مجھے مرزا غالب یاد آئے:
ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہئے
خامہ انگشت بہ دندان ہے اسے کیا لکھئے
 
اس شعر کو لکھنے کا سبب یہ ہے کہ پاکستان اور اس کے نظریئے کی روشنی میں پاکستانی یہ سمجھتے ہیں کہ امریکا و اسرائیل کی اتحادی بادشاہتوں اور مسلم جمہوریتوں میں ’’اتفاق‘‘ کی گنجائش نہیں، اگر بادشاہتیں اسلام و مسلمین کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہوتیں تو شاید مشترکہ موقف بن سکتا تھا۔ پھر پاکستانی حکمران جمہوریت سے محبت کے بھی بلند و بانگ دعوے کرتے ہیں۔ آصف زرداری سابق حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے عملاً سربراہ ہیں۔ پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرح نواز شریف کی مسلم لیگی حکومت بھی خود کو جمہوری طریقے سے منتخب حکومت قرار دیتی ہے۔ جمہوریت کی سند جاری کرنے والے بڑے بڑے چیمپیئن یعنی امریکا اور یورپی ممالک بھی پی پی پی اور نواز لیگ کی حکومتوں کے جمہوری ہونے کی سند جاری کرچکے ہیں۔ جب آپ عوام کی نمائندگی کے دعویدار ہیں تو بحرین میں عوام دشمن موروثی و خاندانی بادشاہت کے فطری اتحادی بن ہی نہیں سکتے۔
 
کیا زرداری و نواز حکومت کو یہ معلوم نہیں کہ 15 لاکھ سے بھی کم آبادی کا جزیرہ نما ملک بحرین پر آلِ خلیفہ کی خاندانی بادشاہت کی حکمرانی ہے۔ کیا انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ بحرین میں عوامی تحریک چل رہی ہے۔ بحرین کے عوام و خواص بحرین کے دفاع کے لئے متحد ہیں۔ وہ آلِ خلیفہ کی حکومت ہٹا کر جمہوری حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن امریکا نے اگر پاکستان میں کسی کو ’’حاجی‘‘ کہا ہے تو جواباً وہ بھی تو امریکا کو ’’حاجی‘‘ ہی کہیں گے۔ چونکہ بحرین میں امریکا کا پانچواں بحری بیڑہ موجود ہے، اور حماد بن عیسٰی امریکا و یورپ کا اتحادی بادشاہ ہے، اس لئے جمہوری حکمرانوں اور آمر بادشاہوں کی ’’اقدار‘‘ بھی مشترک ہوگئی ہوں گی۔ یعنی امریکی غلامی ہی واحد مشترک اقدار ہے، ورنہ اسلام دشمن بادشاہ اور اسلام کے نام پر وجود میں آنے والے ملک پاکستان میں دوسری کوئی مشترک قدر ہمیں نظر نہیں آرہی۔
 
یہ نکات عالمی و علاقائی سیاست سے آگاہ افراد کے لئے کھلی حقیقت ہیں۔ آلِ خلیفہ کی بادشاہت اور امریکی بحری اڈے کا خاتمہ لازم و ملزوم ہے، کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضرورت ہیں، بحرین کے عوام کو ان کی ضرورت نہیں۔ بدقسمتی سے بحرین کے بادشاہ اور ان کے پاکستانی دوستوں کے تعلقات کی نوعیت ایسی رہی ہے کہ بحرین کے عوام بھی پاکستانیوں کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔ ایک منصوبہ بندی کے تحت بحرین کی مقامی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے غیر ملکیوں کی کثیر تعداد کو بحرین بادشاہت نے خود آباد کیا تھا۔ یہ سلسلہ آج تک مرحلہ وار جاری رہا ہے۔ 2010ء اور 2011ء میں بھی پاکستان سے بحرین کے لئے بھرتیاں کی گئیں۔ صدر زرداری کے دور ے کے وقت متعلقہ وزارت نے بیان جاری کیا تھا کہ اوورسیز یعنی سمندر پار پاکستانیوں سے متعلق محکمے کی جانب سے بحرین میں ملازمت پر پابندی ہے۔ پرائیوٹ سیکٹر میں اگر کوئی ادارہ بھرتی کرے تو انٹرویو دینے والے خود ذمے دار ہوں گے۔
حیرت اور افسوس کی بات یہ تھی کہ بحرین حکومت نے پاکستان کے فوجی و نیم فوجی اداروں اور پولیس کے ریٹائرڈ ملازمین کو بھرتی کیا۔ مقصد واضح تھا کہ وہ بحرین میں امریکی و برطانوی سامراج کو خطے میں مداخلت کی دعوت دینے والی اور ان کے اڈوں کی میزبانی کرنے والی غیر نمائندہ حکومت کے خلاف پرامن سیاسی تحریک کو کچلنے کے لئے بھرتی کئے جا رہے تھے۔ پاکستان میں اپنے مخالفین کو آمریت کی پیداوار قرار دینے والوں کی حکومت کے دور میں بھی آمریت کی پالیسی پر عمل جاری رہا۔ ایک طرف پاکستان کئی مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں، منشیات اور اسلحے کے اسمگلرز وغیرہ سے پاکستان کو داخلی خطرات لاحق ہیں۔ جب پاکستان میں جگہ جگہ دہشت گردی ہو رہی تھی تو بحرین کے بادشاہ کے دفاع کے لئے کرائے پر یہ افراد بھیجے جا رہے تھے۔ 

ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم کے سرکردہ افراد بھی پاکستان کے دفاع کے لئے قومی غیرت پر مبنی پالیسی کی باتیں کرتے ہیں اور ان کے مطالبات سے سبھی آگاہ ہیں۔ لیکن افسوس کہ ریٹائرڈ فوجی افسران کے ادارے فوجی فاؤنڈیشن کا نام پاکستان کے اخبارات میں بحرین میں بھرتیاں کرنے والے ادارے کے طور پر شائع ہوا۔ ریٹائرڈ اور حاضر سروس فوجی افسران نظریہ پا
کستان کی روشنی میں غور کریں تو وہ یہ جان سکتے ہیں کہ پاکستان اپنی پالیسی میں بعض حدود و قیود کا شروع سے قائل رہا ہے۔ بانیانِ پاکستان میں سے محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی پالیسی کی حیثیت اور اہمیت کیا ہے؟ نظریۂ پاکستان کا اہم ترین اثاثہ فکرِ اقبال ہے۔ وہ علامہ اقبال جسے بابائے قوم نے قومی شاعر اور عملی سیاست دان کہا، نواز شریف کی مسلم لیگی حکومت کو یاد رہے کہ اسی اقبال نے فرمایا :
فتنہ ملت بیضاء ہے امامت اس کی
جو مسلماں کو سلاطین کا پرستار کرے
 
بحرین اور دیگر ممالک کے مسلمانوں پر مسلط سلاطین یعنی بادشاہوں کی مدد کرنا نظریہ پاکستان سے بھی خیانت ہے۔ مصر، تیونس کی طرح بحرین کے عوام و خواص نے بھی غیر نمائندہ حکومت یعنی بادشاہت و آمریت کے خلاف فیصلہ کن قیام کیا ہے۔ وہ امریکا، برطانیہ سمیت مشرق و مغرب کے سامراج سے اور ان کے ایجنٹوں سے نجات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ صہیونیت دشمن ہیں۔ انکی خودی، خود مختاری، قومی آزادی سبھی کچھ داؤ پر ہے۔ انتہائی معذرت کے ساتھ عرض کر دیں کہ موجودہ بحرین پالیسی کے ذریعے ہم کوئی اچھا ماڈل بننے میں ناکام رہے ہیں۔ ہمارے فیصلے امریکا اور اس کے اتحادی کر رہے ہیں۔ بحرینی بھی ہماری طرح مصائب و مشکلات کا شکار ہیں۔ لیکن بقول وارث شاہ لگیاں دے دکھ وکھرے، بحرینی عوام نے اسلام کے اس آفاقی پیغام سے لو لگا لی ہے، جس کے بارے میں اقبال کا شعر پہلے ہی تحریر کیا جاچکا ہے۔ بانیان پاکستان کے نظریئے اور بحرینی عوام کے فلسفہ قیام میں شباہت پائی جاتی ہے۔ 

سابق صدر آصف زرداری کا دورہ بحرین ہو، بحرینی وزیر خارجہ کا اس سے پہلے کیا گیا پاکستان کا دورہ ہو، یا نواز دور حکومت میں بحرینی بادشاہ کا دورہ پاکستان،، اس سے بحرینیوں کی نظر میں پاکستان اور پاکستانیوں کا کردار ایک ہیرو کے بجائے ولن کا بن جاتا ہے، جو کسی صورت ہمارے قومی مفاد میں بھی نہیں۔ یہ دشمن ممالک کا وہ ایجنڈا ہے جس پر پاکستان کو عمل نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نہیں بھولے کہ طالبان دور کی پاکستان پالیسی پر بھی بعض عرب ممالک کے عوام بھی پاکستان کو قصور وار سمجھتے تھے جبکہ ان کی حکومتیں خود اس پالیسی میں پاکستان کو استعمال کرتی رہی تھیں۔ بحرین میں پاکستانیوں کے بارے میں جو منفی رائے قائم کی جاچکی یہ تو دور کی بات ہوگی، لیکن آپ ذرا افغانستان جا کر ایک عام افغانی سے معلوم کرلیں کہ وہ پاکستانیوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔ وہ افغانستان میں پناہ گزین پاکستانی پختونوں کو کہتے ہیں کہ تمہیں ہمیں مارنے کے لئے بندوق دے کر بھیجا گیا لیکن آج ہم تمہیں بدلے میں کھانا پیش کر رہے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان میں خود کو امریکا کا مخالف ظاہر کرنے والے بتائیں کہ امریکا و سرائیل کے اتحادی بحرین کے عرب بادشاہ کے مظالم کے خلاف کوئی ایک بیان، کوئی ایک تحریر، کوئی ایک تقریر بھی آپ کے ریکارڈ میں موجود ہے! 

پاکستان اور سارے پاکستانی خواہ کسی بھی طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں، بحرین کے مسئلے پر ایک عادلانہ و عاقلانہ موقف اپنائیں اور وہ یہ ہے کہ بحرین سے فوراً پاکستانیوں کو وطن واپس بلوایا جائے۔ یہاں اگر کوئی حمایت نہیں کرتا تو نہ کرے لیکن ان کے خلاف سازش بھی نہ کرے اور سازش کا حصہ بننے سے بھی گریز کرے۔ نام نہاد جمہوری دنیا اور حقوق انسانی کے بزعم خود علمبردار ممالک اور تنظیمیں کم از کم اپنے اس نیریٹیو کی ہی لاج رکھ لیں، جو وہ جمہوریت اور انسانی حقوق کے بارے میں بیان کرتی ہیں۔ کیا نمائندہ جمہوری سیاسی نظام وضع کرنا اور نمائندہ جمہوری حکومت قائم کرنا، بحرین کے عوام کا حق نہیں؟ جب یہ ناقابل تنسیخ حق ہے تو پھر اس کے حصول کے لئے پرامن تحریک چلانے والی شیخ علی سلمان کی جمعیت الوفاق الاسلامی اور شورائے اسلامی علمائے بحرین اور ان کے اتحادیوں اور حامیوں کے خلاف ہر کارراوئی کی مخالفت و مذمت کی جائے اور حق کا ساتھ دیا جائے۔
 
لبنان کے مشہور و معروف سنی عالم دین شیخ ماہر حمود کا شکریہ کہ انہوں نے بحرین کی سیاسی تحریک کے حق میں بیان دیا۔ صیدا شہر میں واقع مسجد قدس کے امام شیخ ماہر حمود نے مرکز حقوق بشر بحرین کے سربراہ یوسف ربیع اور اس مرکز کے شعبہ اطلاعات کے مسؤل باقر درویش سے ملاقات میں کہا کہ بحرین کی جیلیں بے گناہ سیاسی قیدیوں سے بھری پڑی ہیں۔ انہیں بادشاہی حکومت کی مخالفت کے جرم میں پس زندان ڈالا گیا ہے اور نہ تو ان پر کوئی عدالتی کارروائی ہوئی اور نہ ہی باقاعدہ چارج شیٹ، بس بادشاہی نظام کی مخالفت کا الزام ہے۔ اس صورتحال میں انتخابات کا فیصلہ غیر عادلانہ و غیر منصفانہ ہے۔ انہوں نے بحرین کے مظلوم و مستضعف عوام کو یقین دلایا کہ جو ملت بھی صبر و ایمان و استقامت کے ساتھ اپنے حق کے لئے مبارزہ کرتی ہے، اسے اس کا ثمر ضرور مل کر رہتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button