مضامین

امام المتقین حضرت علی (ع) کا زہد و تقویٰ

تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر

نبی مکرم، نور مجسم، رحمت عالم، حضرت محمد مصطفٰی ﷺ نے اپنے جانشین، بھائی اور نائب حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے لئے اپنی حیات مبارکہ میں بے شمار کلمات، ارشادات، فرامین اور احادیث بیان فرمائیں، جن میں حضرت علی ؑ کے اوصاف، خصائل اور فضائل کا احاطہ کیا گیا۔ اگرچہ علم و حکمت اور جرات و شجاعت ایک ہی وقت میں علی ؑ کے ممتاز اوصاف میں شامل ہیں، لیکن تقویٰ کی معراج اور زُہد کا نکتہ عروج بھی علی ؑ کی ذات کے ساتھ منسلک اور مربوط نظر آتا ہے، اسی لئے خاتم الانبیاء کی ذات والا صفات نے حضرت علی ؑ کو جہاں امیرالمومنین کا تمغہ عطا فرمایا، وہاں انہیں فقط عابد یا زاہد یا متقی کہنے تک محدود نہیں کیا بلکہ انہیں امام المتقین کا اعزاز بھی مرحمت فرمایا۔ حضرت علی ؑ کے زُہد کا نکتہ اول وقت ولادت دست نبی ؐ پر تلاوت قرآن ہے۔ پھر جب حضور اکرم ؐ نے حکم خدا کے تحت پہلی مرتبہ فریضہ نماز کی ادائیگی فرمائی تو حضرت علی ؑ پہلے نمازی قرار پائے، جس نے اقتدائے رسول ؐ میں پہلی نماز ادا فرمائی اور اسی تسلسل میں ’’مصلّی الی القبلتین‘‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ نبی اکرم ؐ کی نگرانی میں پرورش پانا والا علی ؑ یقیناً زُہد و تقویٰ کے آخری مدارج پر فائز تھا۔

زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ جب شدت کی جنگوں اور کفار و مشرکین کے ساتھ بڑے بڑے معرکوں کو فتح کرنے کے بعد علی ؑ کے جسم اطہر پر زخم آجاتے تھے تو صحابہ وہ وقت تلاش کرتے تھے کہ علی ؑ کے جسم میں پیوست تیر یا کچھ اور کیسے نکالا جائے؟ اس کا حل خود خاتم الانبیاء نے نکالا اور فرمایا جب علی ؑ اپنے خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو اور عبد و معبود کی گفتگو شروع ہوجائے تو چلے جانا اور تیر نکال کر آجانا، کیونکہ علی ؑ اپنے خدا کے ساتھ گفتگو میں اس قدر منہمک ہوتا ہے اور اس گہرائی سے مستغرق ہوتا ہے کہ دنیا و مافیہا سے بے نیاز و بے پرواہ ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ زُہد کیا ہوگا۔ زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ کفار و مشرکین یا منافقین کے ساتھ جنگیں جب اپنے عروج پر ہوتی تھیں، جب جنگ کا نتیجہ فتح یا شکست کے قریب ہوتا تھا، جب سپہ سالاروں کے حملے اپنے نکتہ اختتام پر ہوتے تھے اور کوئی سپاہی بھی جنگ میں کسی قسم کی تاخیر یا رکاوٹ قبول کرنے کو اس لئے تیار نہیں ہوتا تھا کہ کہیں میدان ہاتھ سے نہ نکل جائے اور ہر سپاہی اس ہدف میں ہوتا تھا کہ تلواریں تب تک نیام میں نہ ڈالی جائیں، جب تک دشمن کو شکست دے کر فتح اپنے نام نہ کرلی جائے۔ عین اس وقت اور ماحول میں اگر نماز کا وقت ہوجاتا تو علی ؑ ہر قسم کے نتائج کی پرواہ کئے بغیر تلوار کو نیام میں ڈال کر بارگاہ صمدیت میں سجدہ ریز ہوجاتے اور ہر اس شخص کو جنت کی بشارت دیتے جو جنگ کے دوران یا جنگ کے عروج میں علی ؑ کو نماز کے وقت کی یاد دہانی کراتا۔

زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ علی نے فقط نماز، روزے یا عبادات کی حد تک تقویٰ اور زُہد کو محدود نہیں کیا بلکہ انسانی زندگی کے ہر ہر پہلو میں تقویٰ اور زُہد کو مدنظر رکھ کر بیان کیا اور لوگوں کو تاکید کی کہ وہ زُہد و تقویٰ کو فقط عبادات کی حد تک محدود نہ رکھیں، بلکہ معاملاتِ زندگی میں بھی اس کا لحاظ رکھیں۔ علی ؑ کا عدل دراصل علی ؑ کا زُہد ہے، انہوں نے اپنی زندگی کو عدل کے لئے اس حد تک وقف فرمایا تھا کہ لوگوں کے ساتھ دوستی اور دشمنی کا معیار ہی عدل قرار دے دیا تھا۔ آپ خود فرماتے ہیں کہ لوگ حکمرانوں کے دشمن ان کے ظلم کی وجہ سے ہوتے ہیں، لیکن میرے دشمن میرے عدل کی وجہ سے ہوئے۔ میں واحد حکمران ہوں، لوگ جسکے دشمن اس کے عدل کی وجہ سے ہوئے ہیں اور خدا کی قسم میں عدل کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑوں گا، چاہے اس کے لئے کتنی ہی قیمتی متاع میرے ہاتھ سے جاتی رہے۔ علی ؑ نے عدل قائم کرکے ثابت کر دیا کہ حقیقی زُہد اور تقویٰ عدل ہے۔

علی ؑ کے نزدیک تقویٰ تمام خصلتوں کا سرتاج ہے، یعنی ہزار ہا خصلتیں اور اوصاف ہونے کے باوجود اگر انسان کی زندگی تقویٰ سے خالی ہے تو سمجھ لیا جائے کہ وہ زندگی حقیقت سے خالی ہے اور اوصاف اپنے بادشاہ و سربراہ سے محروم ہیں۔ علی ؑ کے نزدیک تقویٰ اور زُہد کی پہلی منزل ترک گناہ ہے، اس لئے آپ فرماتے ہیں کہ ترک گناہ کی منزل بعد میں مدد مانگنے سے زیادہ آسان ہے۔ یعنی انسان اس امید پر گناہ کرتا چلا جائے کہ گناہ بخشوانے کے لئے قیامت کے دن یا زندگی کے آخری دنوں میں اللہ سے مدد مانگ لوں گا یا اللہ کے رسول ؐ سے مدد مانگ لوں گا، یا رسول ؐ کے جانشینوں کے وسیلے سے مدد حاصل کرلوں گا تو یہ اس شدید غلطی ہوگی۔ لہذا اس کے لئے لازم ہے کہ مدد کی امید رکھنے کی بجائے سب سے پہلے گناہ کو ترک کرے اور اپنے آپ کو تقویٰ کے حصار میں محصور کرلے، پھر معمولی کوتاہی پر مدد، شفاعت اور توسل کی امید رکھے۔

زمانے نے یہ بھی دیکھا کہ علی ؑ نے روحانی تقویٰ اور زُ ہد کے ساتھ معاشرتی تقویٰ کی بنیاد ڈالی۔ سیاسی تقویٰ ایجاد فرمایا۔ سماجی تقویٰ کی رسم ڈالی۔ انسانی رویوں میں تقویٰ کو شامل فرمایا۔ یہ فقط الفاظ یا اصطلاحات تک محدود نہیں بلکہ علی ؑ کا طرز زندگی اور نہج البلاغہ کی شکل میں ان کے فرمودات اس بات کی بین دلیل ہیں کہ وہ صرف عبادی تقویٰ کو کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ تقوی کی دیگر اشکال پر ان کا توجہ زیادہ مرکوز رہی۔ زندگی کے ہر ہر شعبے میں تقویٰ اور زُہد کی تلقین فرماتے رہے، چاہے وہ گھریلو زندگی ہو یا خاندانی زندگی۔ چاہے گروہی زندگی ہو یا جماعتی۔ چاہے
حکومتی زندگی ہو یا حزب مخالف زندگی۔ چاہے مذہبی زندگی ہو یا سیاسی زندگی۔ چاہے سماجی زندگی ہو یا انسانی پہلووں پر محیط زندگی۔ ہر ہر مرحلے پر علی ؑ نے تقویٰ اور زُہد کی تاکید فرمائی۔

زندگی کے تمام امور میں زُہد و تقویٰ کی اتنی اہمیت ہے کہ علی ؑ نے دنیا سے رخصت ہوتے وقت اپنے معصوم اور امام بیٹوں یعنی حسن ؑ و حسین ؑ کو جو آخری نصیحت اور وصیت فرمائی، اس کا محوری نکتہ زُہد و تقویٰ ہے، لیکن فقط عبادی نہیں بلکہ اجتماعی۔ آپ نے فرمایا ’’میں تمہیں زندگی میں تقویٰ اور اپنے امور میں نظم پیدا کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔‘‘ امیرالمومنین کی یہ وصیت اور نصیحت ظاہراً حسنین کریمین کے لئے تھی لیکن ان کے ذریعے یہ وصیت پوری امت مسلمہ بلکہ پورے عالم انسانیت کو تھی کہ ہر ہر انسان اپنی زندگی کو کس نہج اور کس خط پر بسر کرے۔ علی ؑ کی وصیت جہاں ہمیں علی ؑ کے امام المتقین ہونے کی یاد دلاتی ہے، وہاں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ہم اپنی زندگی کے ہر انفرادی اور اجتماعی پہلو میں تقویٰ اور زُہد کو بغیر ریا کاری اور نمود و نمائش کے نافذ کریں، کیونکہ علی ؑ کے نزدیک ’’بہترین زُہد، زُہد کو مخفی رکھنا ہے۔‘‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button