مضامین

شام کے تازہ ترین حالات پر ایک نظر

تحریر: عرفان علی

فلسطینیوں کی عملی مدد کرنے والی واحد عرب ریاست و حکومت شام پر مسلط صہیونی امریکی و خائن عرب اتحاد کی نیابتی جنگ کو دو رخوں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک رخ پر جنگ مسلط کرنے والے اسرائیل دوست ممالک اور ان کی نیابتی جنگ میں آلہ کار ٹولے اور شخصیات ہیں تو دوسرے رخ پر شام کا دفاع کرنے والی بشار الاسد کی حکومت اور اس کے اتحادی ہیں، جن میں روس اور ایران سرفہرست ہیں جبکہ اقوام متحدہ میں چین سمیت بعض ممالک شام کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس طرح شام کے بحران اور اس کے حل سے متعلق دو مختلف آراء وجود رکھتی ہیں اور شام کی جنگ جاری رہے گی یا جلد ختم ہوجائے گی۔ ایسا بحران کے پرامن سیاسی حل کی صورت میں ہوگا یا یہ بحران فیصلہ کن جنگ کے ذریعے حل ہوگا، ان سوالات کے جوابات کیا ہیں؟ زیر نظر تحریر انہی جوابات کی تلاش کی ایک کوشش ہے۔

اگر امریکا، سعودی اتحاد کا موڈ دیکھا جائے تو شام میں اسرائیل نواز ممالک کی مسلط کردہ جنگ تاحال اختتام سے دور نظر آتی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ جنگ مسلط کرنے والے ممالک اپنے اپنے مہروں کو بے لگام رکھنا چاہتے ہیں۔ تازہ ترین صورتحال کچھ یوں ہے کہ آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں شام کے بحران کے حل کے لئے دو نشستیں ہونے کے باوجود غیر ملکی نیابتی جنگ لڑنے والے باغی اور دہشت گرد مطمئن نہیں ہوئے یا پھر ان کے غیر ملکی آقاؤں کی جانب سے انہیں اطمینان بخش اشارے نہیں ملے۔ لہٰذا وہ سعودی عرب کی میزبانی میں ماہ دسمبر کی پندرہ تاریخ کو سعودی بادشاہت کے کسی مقام پر اجلاس میں حکمت عملی طے کریں گے۔ تب انہیں دی جانے والی نئی سعودی ڈکٹیشن بھی سامنے آجائے گی۔ وہ اپنے غیر منطقی اور نامعقول مطالبے پر اصرار کرتے ہیں کہ شام کی ریاست، سیاست و حکومت سے بشار الاسد کو خارج کر دیا جائے، جبکہ شام کے اندرونی و معروضی حالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بشار الاسد کو منہا کرنے کا مطالبہ شام کے عوام کی غالب اکثریت کو قبول نہیں، اگر ایسا ہوتا تو وہ سبھی اس مطالبے کے پیچھے کھڑے ہو جاتے۔

یہ تو ہوا جنگ مسلط کرنے والے فریق کا موڈ، لیکن شام کی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو وہ مسلط کردہ جنگ کو فیصلہ کن مرحلے میں داخل کرچکے ہیں۔ ایک جانب روس کے طیارے دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ آور ہیں تو دوسری جانب شام کی اپنی افواج درجنوں ٹھکانوں میں چھپے غیر ملکی ایجنٹوں کو ہلاک کرچکی ہے۔ شام کی فوجی کارروائی ریف دمشق سے ترکی کی سرحدوں پر واقع صوبوں اللاذقیہ (Lattakia) ادلب اور حلب تک، دوسری جانب عراق کی سرحد پر واقع دیر الذور تک اور تیسری جانب حمص جیسے صوبے میں بھی جاری ہے کہ جو ایک سرے پر عراق اور اردن کے ساتھ سرحدی پٹی پر ملتا ہے تو دوسری جانب لبنان کی سرحد پر واقع ہے۔ ریف دمشق بھی ایک سرے پر اردن کی سرحد سے ملتا ہے۔

مزید مائیکرو سطح پر جائزہ لیں تو ریف دمشق صوبے کے مختلف علاقوں بالخصوص مشرقہ ال غوطہ میں شام کی افواج نے جبہۃ النصرہ اور جیش الاسلام کے ناموں سے دہشت گردی کرنے والے تکفیریوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ وہاں کیپٹن عبدالنصر شمیر عرف ابو نصر کے فیلق الرحمان نامی ایک تکفیری گروہ کے خلاف بھی فیصلہ کن کارروائی ہوئی ہے۔ صوبہ ادلب اور حماہ میں جیش الفتح، احرار الشام اور جند الاقصٰی نامی تکفیری گروہوں کے خلاف کارروائی ہوئی ہے۔ یہاں دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ شام میں اسلام و مسلمین کے لئے تقدس کے حامل نام اور اصطلاحات کو اسلام و مسلمین کے دشمنوں کے مفاد میں مسلمانوں اور عربوں کا دفاع کرنے والوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے، ورنہ اس خطے میں یہ سارے گروہ مسجد اقصٰی کو آزاد کروانے کے لئے جعلی ریاست صہیونی اسرائیل پر حملہ کرتے نہ کہ بشار الاسد کے ملک شام پر۔ صوبہ اللاذقیہ میں جبہۃ النصرہ اور لواء السلطان عبد الحمید، حلب میں داعش، احرار الشام، جبہۃ الشامیہ، جیش المجاہدین اور جبہۃ النصرہ کے خلاف، صوبہ دیر الذور میں داعش کے خلاف اور درعا میں جبہۃ النصرہ کے خلاف کارروائیاں عمل میں آئی ہیں۔

شامی فوج کے ترجمان نے 15 نومبر سے 20 نومبر تک کی کارروائیوں کی تفصیلات بیان کی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 114 فضائی حملوں میں دہشت گردوں کے 447 اہداف کو نشانہ بنایا۔ ان کارروائیوں میں دہشت گرد بھی مارے گئے، ان کے اسلحے کے ڈپو بھی تباہ کئے گئے۔ 19 نومبر کی خبر کے مطابق روس نے فضائی حملوں میں داعش کے 344 مراکز تباہ کرنے کا دعویٰ کیا، ان میں 59 کمانڈ سینٹر، 41 ڈپو، 17 قلعہ بند ٹھکانے، 74 تربیتی مراکز، تیل ذخیرہ کرنے والے 3 اسٹور، بم بنانے والی فیکٹری، مارٹر بنانے والی ورکشاپ، تیل سے لبالب بھرے 500 ٹینک بھی ان میں شامل ہیں۔ 21 نومبر کی خبر کے مطابق صدر بشار الاسد کے حکم پر شام کی مسلح افواج کے چیف آف جنرل اسٹاف علی عبداللہ ایوب نے حماہ اور اللاذقیہ صوبوں میں مختلف فیلڈ یونٹس کا دورہ کیا ہے۔ مشرقی غوطہ میں شام کی افواج نے مکمل کنٹرول سنبھال لیا۔ دہشت گردوں کے قبضے سے کئی علاقے آزاد کروا لئے گئے ہیں۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تھرڈ کمیٹی کے سامنے بیان میں شام کے مستقل مندوب بشار ال جعفری نے سعودی عرب، قطر اور ترکی کو شام میں دہشت گرد کارروائیاں جاری رہنے کا ذمے دار قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان دہشت گرد کارروائیوں کی وجہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام کے خلاف مجوزہ قرارداد لانے والے سع
ودی عرب کا اپنا انسانی حقوق اور قانون کی پاسداری کا ریکارڈ انتہائی خراب اور مایوس کن رہا ہے۔ سب سے زیادہ وہابی تکفیری دہشت گردوں کی حامی سعودی حکومت خود ہے اور وہی ان کی مالی مدد کرتی ہے۔ شام کے مستقل مندوب نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ اور اس کی سلامتی کاؤنسل کی ذیلی کمیٹیوں کی متعدد رپورٹوں سے ثابت ہوچکا ہے کہ اقوام متحدہ کے 115 اراکین ممالک سے سعودی عرب نے خود دہشت گرد درآمد کئے اور پھر انہیں شام بھیج دیا۔ وہ حیران تھے کہ سعودی عرب جس نے خود شہری و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے پر دستخط نہیں کئے، وہ شام کے خلاف قرارداد پیش کر رہا ہے جبکہ شام 1969ء سے اس معاہدے کا ایک فریق ہے۔

ایک طرف عرب دنیا کے خائن مسلمان حکمران صہیونیت زدہ امریکی مغربی اتحاد میں شام دشمن مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں تو دوسری جانب امریکا کی ری پبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے ورجینیا سے منتخب سینیٹر رچرڈ بلیک ہیں، جنہوں نے شام کے صدر بشار الاسد کو خط لکھا ہے، جس میں ان کی تعریف اور ان کے موقف کی تائید کی گئی ہے۔ انہوں نے شام کے ٹی وی چینل سے بذریعہ اسکائپ بات چیت بھی کی۔ ان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی قطر، سعودی عرب اور مغربی انٹیلی جنس اداروں کی مالی مدد سے کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شام کے عوام کو اپنی حکومت کی حمایت کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔ شام کے عوام اسی طرح متحد رہیں گے تو کامیاب ہوں گے۔ امریکی سینیٹر رچرڈ بلیک نے مزید کہا کہ شام میں دہشت گردی ترکی کی سرحدوں کے راستے داخل ہوئی۔

شام کے حالات بتا رہے ہیں کہ مستقبل میں شام کی حکومت کے حق میں مزید آوازیں بلند ہوں گی اور دنیا کے غیرت مند اور انصاف پسند اہل سیاست عالمی سامراج اور ان کے علاقائی چوکیداروں کے خلاف اپنے اپنے ملک کی رائے عامہ کو مستحکم رکھیں گے اور اس ضمن میں کسی کو بھی صہیونیت زدہ ذرائع ابلاغ کی تبلیغاتی جنگ کی وجہ سے گمراہ نہیں ہونے دیں گے۔ ایران کے دارالحکومت میں روسی صدر پیوٹن اور لاطینی امریکا کے سامراج دشمن ممالک کے سربراہان ریاست و حکومت کا جمع ہونا، بدلتی ہوئی سیاست کے مثبت پہلو کی طرف اشارہ ہے۔ اگر یہ رہنما ایران کے عادلانہ و عاقلانہ موقف پر اتفاق کرکے لوٹیں گے تو بین الاقوامی فورم پر حق کے حق میں آواز اٹھانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگا اور باطل موقف کی بنیاد پر دھونس و دھاندلی پر مبنی سامراجی ایجنڈا کامیاب نہیں ہونے پائے گا، ایسی صورت میں شام دہشت گردوں کا قبرستان ثابت ہوگا اور تکفیریت اپنے غیر ملکی آقاؤں سمیت تاریخ کے عجائب گھر میں دفن کر دی جائے گی۔ انشاءاللہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button