امام خمینی کا مکتب عرفانی
تحریر: ثاقب اکبر
سید روح اللہ الموسوی جو عالم سیاست و فقاہت میں امام خمینی کے نام سے بے نظیر شہرت رکھتے ہیں، مربی اخلاق بھی تھے۔ وہ دنیائے عرفان میں بھی ایک بلند مقام کے حامل تھے۔ عام لوگ انہیں اس پہلو سے بہت کم جانتے ہیں۔ ہم سطور ذیل میں ان کی عرفانی شخصیت کے بعض پہلوؤں کا ذکر کریں گے۔ علاوہ ازیں ان کے مکتب عرفانی کا مختصر تعارف کروائیں گے۔
گورباچوف کے نام خط
امام خمینی کے مکتب عرفان کا واضح طور پر پتہ آپ کے اس مکتوب سے چلتا ہے، جو آپ نے سوویت یونین کے آخری صدر میخائل گورباچوف کے نام تحریر فرمایا۔ اس میں آپ نے پیشگوئی کی کہ کیمیونزم بہت تیز رفتاری سے ختم ہو جائے گا اور پھر دنیا اسے سیاست کے عجائب گھر میں دیکھے گی۔ آپ کی یہ پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوگئی۔ جلد ہی سوویت یونین سے کمیونزم کا بوریا بستر لپٹ گیا اور خود سوویت یونین نے اشتراکیت کو اپنے ملک سے دیس نکالا دے دیا۔ یہ وہی ملک ہے، جس کے سربراہ لینن نے کبھی کہا تھا کہ اول تو خدا ہے نہیں اور اگر ہے بھی تو ہم نے اسے اپنے ملک سے دیس نکالا دے دیا ہے۔ اس مکتوب میں امام خمینی نے سوویت یونین کی قیادت کو نصیحت کی تھی کہ اشتراکیت کے زوال کے بعد سرمایہ داری کی طرف رخ نہ کریں، کیونکہ یہ نظام آپ کی مشکلات کو حل نہ کرسکے گا۔ افسوس کہ کمیونزم کے زوال کے بعد روس نے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف ہی رخ کیا، لیکن یہ نظام ان کے درد کا مداوا نہ کرسکا۔
اسی مکتوب میں امام خمینی نے گورباچوف اور ان کے ذریعے سوویت قیادت کو عالم غیب کی طرف متوجہ کیا اور یہ واضح کرنے کی کوشش کی کہ کائنات فقط مادی نہیں ہے بلکہ اس کا ایک روحانی پہلو بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس بات کو سمجھنے کے لئے سوویت دانشوروں کو ایک عرصہ تک محی الدین ابن عربی اور ملا صدر الدین شیرازی جیسے عرفاء و فلاسفہ کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔ اس دعوت سے امام خمینی کے مسلک عرفان سے آگاہی ہوتی ہے۔ یہی وہ محی الدین ابن عربی ہیں، جنھیں پدر عارفان یا ابوالعرفاء کہا جاتا ہے۔ امام خمینی نے اپنی تحریر و تقریر میں مختلف مقامات پر محی الدین ابن عربی کی اصطلاحات سے استفادہ کیا ہے۔ عرفان و اخلاق کے موضوع پر امام خمینی کی 14 کتابیں ہیں، جن سے امام خمینی کی عرفانی مطالب کے بارے میں گہری آگاہی اور ان سے وابستگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
عرفان کیا ہے؟
امام خمینی کے نزدیک عرفان ہستی مطلق اور عالم وجود کے حقائق کی معرفت ہے کہ جو مشاہدہ حضوری سے حاصل ہوتی ہے، حصولی طریق سے نہیں۔ امام خمینی واضح کرتے ہیں کہ فلسفی کتابیں اور تعلیمات انسان کو دور سے ماورائے طبیعت سے آشنا کرتی ہیں، جبکہ مکتوبات عرفانی دلوں کو محبوب مطلق کے وصال کے لئے آمادہ کرتے ہیں۔ خود امام خمینی کے تین مکتوبات عرفانی ایسے ہی مطالب سے لبریز ہیں اور انسان جب ان کا مطالعہ کرتا ہے تو وہ حقیقت عرفان تک رسائی کے لئے آمادہ و شیفتہ ہو جاتا ہے۔ اپنی بہو فاطمہ طباطبائی جنھیں وہ پیار سے فاطی کہتے تھے، کے اصرار پر ایک عرفانی مکتوب آپ نے قلمبند فرمایا، جو نہایت عمیق اور خوبصورت مطالب پر مشتمل ہے اور اس شعر سے شروع ہوتا ہے:
فاطی کہ ز من نامہ عرفانی خواست
از مورچہ ای تخت سلیمانی خواست
گویی نشنیدہ ((ما عر فناک))
از آنک جبریل از او نفخہ رحمانی خواست
اس شعر میں آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کی طرف اشارہ کیا ہے: "ماعرفناک حق معرفتک ” ہم نے تجھے نہیں پہچانا جو تیری پہچان کا حق ہے۔
عرفان اور تہذیب نفس کی ضرورت
ایک اور مقام پر عرفان کی وضاحت کرتے ہوئے امام خمینی کہتے ہیں: عرفان حضرت حق، اس کے اسماء اور صفات کی پہچان کا نام ہے اور یہ عبارت ہے حقیقت مطلق میں اپنے آپ کو فنا کر دینے اور آخر کار بقا و جاودانی تک پہنچنے سے۔ آپ فرماتے ہیں یہ معرفت خود سازی اور تہذیب نفس کے بغیر حاصل نہیں ہوتی۔ امام کے نزدیک تزکیہ، تہذیب نفس اور ذکر مدام کہ جو عرفان عملی کا ثمرہ ہے، عالم غیب کا دریچۂ معرفت ہے، جو انسان پر کھلتا ہے اور انسان اسی عالم طبیعت میں کمال تک جا پہنچتا ہے۔
عزلت نشینی کی نفی
امام خمینی عزلت نشینی پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ تصوف و عرفان کا یہ چہرہ امام کی شخصیت میں نظر نہیں آتا۔ وہ فقہ و اصول اور اخلاق و فلسفہ کے استاد تھے۔ شب زندہ دار اور تہجد گزار تھے۔ دوسری طرف حکمرانوں پر بھی نظر رکھتے تھے۔ ان کی غلط روش پر انہیں ٹوکتے تھے۔ مظلوم اور ستم رسیدہ عوام کی حمایت کے لئے بھی اٹھ کھڑے ہوتے تھے۔ یہ سب کچھ ان کے مقام عرفانی ہی کا تقاضا تھا۔
مرحلہ شریعت سے مرحلہ طریقت تک
امام خمینی شریعت پر عمل کے ذریعے ہی مرحلہ طریقت میں داخل ہوئے۔ ان کے نزدیک طریقت دین عادت سے باہر نکلنے کا نام ہے۔ ان کا نظریہ ہے کہ ہر وہ عبادت جو غور و فکر سے خالی ہو اور عادت کے طور پر ہو، سالک کو کمال مطلوب تک نہیں پہنچا سکتی۔ لہٰذا مرحلہ طریقت میں عارف دین حقیقی تک پہنچنے کے لئے دین عادتی کو ترک کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ امور جو پہلے مرحلے (مرحلہ شریعت) میں مقدس سمجھے جاتے ہیں (مسجد، سجادہ اور منبر وغیرہ۔) مرحلہ طریقت
میں ان سے گریز اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ دراصل دین کو عادت بنانے سے پرہیز ہے کہ کہیں یہی امور ہدف نہ بن جائیں اور حقیقت مطلوب تک پہنچنے کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائیں۔
امام خمینی کی یہ معروف غزل ایسے مطالب کی حامل ہے:
من بہ خال لبت ای دوست گرفتار شدم
چشم بیمار تو را دیدم و بیمار شدم
فارغ از خود شدم و کوس انا الحق بزدم
ھمچو منصور خریدار سر دار شدم
غم دلدار فکندہ است بہ جانم، شرری
کہ بہ جان آمدم و شھرۂ بازار شدم
درِ میخانہ گشایید بہ رویم، شب و روز
کہ من از مسجد و از مدرسہ، بیزار شدم
جامۂ زھد و ریا کندم و بر تن کردم
خرقۂ پیر خراباتی و ھشیار شدم
واعظ شھر کہ از پند خود آزارم داد
از دم رند می آلودہ مددگار شدم
بگذارید کہ از بتکدہ یادی بکنم
من کہ با دست بت میکدہ، بیدار شدم
حجابات معرفت
امام خمینی نے ان حجابات کی بھی نشاندہی کی ہے، جو مقام عرفانی کے راستے میں سالک کو درپیش ہوتے ہیں۔ امام خمینی کے نزدیک حقیقت مطلق تک پہنچنے میں انسان کا پہلا حجاب اس کی ’’میں‘‘ ہے، جسے ’’خود‘‘ اور’’انیت انسان‘‘ کہتے ہیں۔ معرفت اگر عقل کے ذریعے ہو تو یہ عقلانی معرفت ہوگی کہ جس کے ساتھ حجاب عقل بھی کارفرما ہوتا ہے، لیکن اگر یہ معرفت رؤیت باطنی کے ذریعے ہو تو یہ شہودی معرفت ہوگی۔ لہٰذا جو کچھ سیر انفسی اور سفر روحانی کے ذریعے حاصل ہو، وہ معرفت بغیر کسی واسطے کے ہوتی ہے کہ جو ظلمتِ جسم میں محبوس روح کے نورِ آزاد اور عالمِ ملکوت سے اتصال سے حاصل ہوتی ہے۔ اس سفر روحانی کے ذریعے انسان صاحب بصیرت ہو جاتا ہے اور اپنے رب کو خوبصورت پاتا ہے، جیسا کے حدیث شریف میں رسول اللہ نے فرمایا ہے:”رأیت ربّی فی احسن صورۃ” میں نے اپنے رب کو خوبصورت ترین صورت میں دیکھا ہے۔ اپنی ’’میں‘‘ ہی کہ نفی کے لئے فرمایا گیا ہے: "موتوا قبل ان تموتوا” موت آنے سے پہلے مر جاؤ۔ انسان جب تک اپنی ذات سے بلند ہو کر عالم بالا کی طرف سفر اختیار نہیں کرتا، اس وقت تک عرفان کا پہلا مرحلہ بھی طے نہیں کر پاتا۔
عشق کی کرامات
امام خمینی کے نزدیک عشق عاشق کو قوت بخشتا ہے اور اسے خلاقیت پر ابھارتا ہے، کیونکہ ایک آتش عاشق کے پورے وجود کو گھیر لیتی ہے اور اسے نقص و کدورت، کثرت بینی اور خود خواہی سے پاک کر دیتی ہے۔ اس وقت انسان جسے بھی دیکھتا ہے، اسے اپنے محبوب کا جلوہ دکھائی دیتا ہے، ہر آواز سے پہلے معشوق کی آواز سنتا ہے، وحدت کو کثرت میں دیکھتا ہے اور کثرت میں ایک حقیقت واحد کی شان اور جلوہ پاتا ہے۔ جیسا کہ امام خمینی نے خود اپنی ایک غزل میں اس مطلب کو بیان کیا ہے۔
با کہ گویم کہ بجز دوست بیند ہرگز
اسی غزل میں ایک اور مصرعہ قابل ملاحظہ ہے۔
جز تو در محفل دلسوختگان ذکری نیست
امام خمینی کے نزدیک انسان اور خدا کے درمیان قوی ترین ارتباط عاشقانہ ارتباط ہے کہ جو انسان کو ہر طرح کی کثرت طلبی اور شرک سے رہا کر دیتا ہے اور اسے توحید کی طرف لے جاتا ہے۔ امام خمینی اس عشق کو انسان کے صفائے باطن اور ریاضت شرعی کے ذریعے قابل حصول سمجھتے ہیں۔
وحدت الوجود کا نظریہ
امام خمینی وحدت الوجود کے نظریئے پر یقین رکھتے ہیں۔ افسوس بہت سے لوگوں کو وحدت الوجود کا نظریہ سمجھ نہیں آیا۔ لہٰذا وہ اس کے خلاف طرح طرح کی باتیں کرتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ نظریہ کسی عارف کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرکے سیکھا جائے بلکہ حاصل کیا جائے۔ اسی نظریئے کی بنیاد پر امام خمینی حق اور خلق کے مابین مباینت کا شدت سے انکار کرتے ہیں اور ہر طرح کی کثرت، دوگانگی اور تغایر کو ایک اعتباری امر سمجھتے ہیں۔ امام کی نظر میں جو کچھ ہے وہی ہے۔ عالم امکان اور عالم کثرات سب کے سب اس وحدہ لا شریک کے صفات و اسماء ہیں۔ لہٰذا عالم میں ہر چیز ایک ایسا مظہر ہے جو مُظہِر کی حکایت کرتا ہے۔ عالم آفرینش اپنی تمام تر وسعت کے ساتھ ذات واحد کا جلوہ و پرتو ہے کہ جس نے رنگا رنگ آئینوں اور متعدد تعینات میں خود کو ظاہر کیا ہے۔ وحدت وجود کے حامل عارف کی نظر میں عالم، ہویت حق کی صورت ہے اور مخلوقات، خالقیت حق کی نمود ہیں۔ وہ عرفاء کہ جو خالق و مخلوق کے مابین ارتباط و عشق کے دوہرے رابطے کے قائل ہیں، وہ اس آیہ شریفہ سے استفادہ کرتے ہیں:
وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ
اور اس معروف حدیث سے بھی:
خلق آدم علی صورتہ
اس نظریئے کی بنیاد پر ہی امام خمینی کی نظر میں انسان اللہ کے اسم و صفت کا مظہر ہے اور اسی ’’اسم‘‘ یا ’’عین ثابت‘‘ سے اپنے خدا سے مرتبت ہوتا ہے۔