مضامین

بیت المقدس کی آزادی میں پاکستان کا کردار اور یوم القدس

تحریر: سید اظہار مہدی بخاری
izharbukhari5@hotmail.com

اگر قرآن کریم میں واقعہ معراج شریف کے حق میں قرآنی دلائل و شواہد دیکھیں تو مسجد اقصٰی، قبلہ اول یعنی بیت المقدس پر اسلامی عقیدہ بہت روشن اور واضح حد تک نظر آتا ہے۔ سیرت رسول ؐ اور سنت رسول ؐ کا جائزہ لیں تو موجودہ خانہ کعبہ سے پہلے پیغمبر گرامی قدر ﷺ کی ساری کی ساری عبادت قبلہ اول کی طرف انجام پاتی ہوئی نظر آتی ہے اور سیدہ خدیجۃ الکبریٰ سلام اللہ علیہا اور سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم پہلے مقتدی قرار پاتے ہیں، جنہوں نے آنحضرت ؐ کی اقتداء میں بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز اور عبادت خدا انجام دی۔ نبی کریم ؐ کے بعد اہل بیت اطہار اور اصحاب ذی وقار کے نزدیک بھی بیت المقدس کی حیثیت، منزلت اور مرتبت وہی رہی جو اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک ہے۔ لیکن اس مسلمہ عقیدے اور سنت رسول ؐ کے باوجود گذشتہ سات دہائیوں سے عالم اسلام کا عمل یہی بتاتا ہے کہ وہ قبلہ اول بیت المقدس پر اس عقیدے کے حامل نہیں ہیں، جو ان کے اسلاف کا تھا۔

قبلہ اول بیت المقدس کی قریباً سات دہائیوں سے صیہونی استبداد سے عدم آزادی سے لگتا ہے کہ مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک کا قبلہ اول پر وہ عقیدہ ہی نہیں ہے، جو انسان کو عقیدت سے سرفراز کرتا ہے، وہ اسی عقیدت کی حرارت سے جدوجہد کرنے کا عزم کرتا ہے، اسی عزم کے نتیجے میں قربانی دینے کے لئے تیار ہوجاتا ہے اور یہی قربانی بالآخر اسے کامیابی عطا کرتی ہے۔ میری ذاتی رائے یہی ہے کہ مسلم ممالک کی اکثریت بیت المقدس کو حرمین شریفین میں شمار ہی نہیں کرتی، جبکہ عرب حکمرانوں کے نزدیک قبلہ اول کی حیثیت ہی کچھ خاص نہیں، یہ صرف دعویٰ نہیں بلکہ گذشتہ اڑسٹھ سالہ تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ عرب ممالک کو بیت المقدس کے وجود سے کتنی عقیدت ہے؟ اس کی آزادی سے کتنی دلچسپی ہے۔؟

قبلہ اول بیت المقدس کی صیہونی تسلط اور یہودی قبضے سے آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر کیوں نہیں ہو رہا؟؟ اسرائیل جیسی غاصب ریاست کا عرب ممالک کے قلب میں وجود پذیر ہوکر ایٹمی اور سپر طاقت بن جانا کیسے ممکن ہوا؟؟ فلسطینیوں کے ساتھ دیگر عرب ممالک کی ہم آہنگی و تعاون کی بجائے دشمنی کیوں بڑھتی چلی جا رہی ہے؟؟ مسئلہ قدس و مسئلہ فلسطین کو خود عرب ممالک کے اندر پذیرائی کیوں نہیں مل رہی؟؟ عرب ممالک میں عوامی سطح پر تو بہت دور کی بات ہے، صرف سرکاری و حکومتی سطح سے قبلہ اول کے حق میں آواز کیوں بلند نہیں ہو رہی؟؟ قبلہ اول کی بازیابی اور فلسطین کی آزادی کو پس پشت ڈالتے ہوئے اسرائیل کے ساتھ دوستانہ نہیں بلکہ غلامانہ تعلقات استوار کرنے کے لئے ترلے کیوں لئے جا رہے ہیں؟؟ قبلہ اول کے مسئلے کو مسلکی رنگ دے کر فلسطینیوں کے خون سے سودے کیوں کئے جا رہے ہیں۔؟؟

وطن عزیز پاکستان اس لحاظ سے فخر و مباہات کرسکتا ہے کہ موجودہ دور میں قبلہ اول سے عقیدت کا دم بھرنے والے اور فلسطین کو آزادی دلانے کے دعویٰ کرنے والوں سے کئی دہائیاں قبل پاکستان نے عوامی سطح سے پہلے سرکاری اور حکومتی سطح پر اسرائیل کو ایک غاصب اور جارح ملک قرار دیا تھا اور اس کے وجود کو ناجائز قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم کرنے سے دوٹوک انکار کر دیا تھا۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی طے کردہ پالیسی آج پاکستان کی ریاستی پالیسی کے طور پر موجود اور نافذ ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد اسلامی ملک ہے، جس کی سرکاری دستاویز یعنی پاسپورٹ (جو عالمی سطح پر پاکستان کے تعارف کی کلیدی دستاویز ہے) میں واضح تحریر ہے کہ ہمارا اسرائیل کے ساتھ کبھی کسی پیار محبت والا رشتہ قائم ہی نہیں ہوسکتا اور ہم نہ اسرائیل میں داخل ہونا چاہتے ہیں اور نہ اسرائیلیوں کو اپنی سرزمین پر قبول کریں گے، تاوقتیکہ اسرائیل قبلہ اول سے اپنا ناجائز تسلط ختم کرے اور فلسطینی عوام کو ان کی آزادی کا حق دے کر ان کے خطے سے اپنا قبضہ ختم کرے۔

اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کی ریاستی پالیسی کا دفاع کرنا ہر دور کی طرح اس دور میں بھی ریاست اور اس کے ستونوں کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے جب تحفظ حرمین کے نام پر ایک ملک کی بادشاہت اور شاہی خاندان کو بچانے کا واویلا شروع ہوتا ہے تو ہمارے ریاستی ادارے بھی شاہی حکمرانوں کے تحفظ کی مہم میں شامل ہوجاتے ہیں، نہ صرف شامل ہوتے ہیں بلکہ ہراول دستے کا کردار ادا کرنے کی یقین دہانیاں کراتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے ریاستی اداروں کو اسرائیل کے حوالے سے اپنی ریاستی پالیسی کو سامنے رکھتے ہوئے تحفظ حرمین کا شور مچانے والے ممالک اور مقامی عناصر سے سوال کرنا چاہیے کہ کیا قبلہ اول بیت المقدس حرمین شریفین میں شمار نہیں ہوتا؟؟ کیا قبلہ اول کی حفاظت کرنا ہماری مشترکہ ذمہ داری نہیں؟؟ اگر مکہ مکرمہ پر میلی نظر ڈالنے والے کے خلاف کارروائی جائز ہے تو کیا بیت المقدس کو تاراج کرنے والے ملک کے خلاف کاروائی جائز نہیں؟؟

اگر ایک حرم کے لئے عرب ممالک کا الگ اور اسلامی ممالک کا چونتیس رکنی اتحاد تشکیل دیا جاسکتا ہے تو بیت المقدس کے حرم کی حفاظت کے لئے اس قسم کے کسی اتحاد کی ضرورت نہیں؟؟ کیا اسی شاہی خاندان سے ہماری ریاست یہ سوال نہیں کرسکتی کہ ہمارے دشمن یعنی اسرائیل کے ساتھ آپ ہر قسم کی دوستی اور اتحاد کرکے ہمیں کیا پیغام دے رہے ہیں؟؟ دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے، کے اصول کے مطابق ہماری ریاست کو طے نہیں کرنا چاہیے کہ ہمار
ا دوست کون ہے اور دشمن کون؟؟ ہماری ریاست کو چاہیے کہ چونتیس ملکی اتحاد سے مطالبہ کرے کہ اس حرم کی حفاظت کے لئے اتحاد تشکیل دینے پر زور نہ لگائیں جو ابھی تک محفوظ ہے اور صرف خدشات کا شکار ہے، لیکن اس حرم کی بازیابی کے لئے اتحاد تشکیل دینے پر اپنا زور صرف کریں، جو عملی طور پر گذشتہ سات دہائیوں سے مسلمانوں کے نہیں بلکہ صیہونی یہودیوں کے قبضے میں ہے۔

پاکستان کو اسرائیل کے حوالے سے اپنی امتیازی پالیسی کو دنیا بھر کے سامنے اجاگر کرنا چاہیے۔ بالخصوص عرب ممالک اور اقوام متحدہ کے سامنے زور دار انداز سے اسرائیل کے تجاوز اور فلسطینیوں پر مظالم کے معاملات اٹھانے چاہیں۔ انہیں سمجھانا چاہیے کہ مسلکی تعصب، سپر طاقتوں کی کاسہ لیسی، اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوششوں، اسرائیل جیسے غاصب و جارح ملک سے تعلقات کی بجائے غیرت مندانہ موقف اور پالیسیاں اپنائی جائیں اور انہی پالیسیوں کے تناظر میں دلیرانہ اقدامات کئے جائیں تو اسرائیل دو دن بھی نہیں نکال سکے گا اور قبلہ اول آزاد ہوجائے گا۔ ہم پاکستانیوں کو یہ انفرادیت بھی حاصل ہے کہ ہم نے اسرائیل کی مخالفت کسی سیاسی ہدف کے حصول کے لئے نہیں کی بلکہ بیت المقدس کے ساتھ اپنی قلبی عقیدت و قرانی حکم کے تحت کی ہے جبکہ فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والی کھلی زیادتیوں کی وجہ سے عدل کی بنیاد پر ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت امام خمینی ؒ نے قبلہ اول کی آزادی کے لئے یوم القدس منانے کی رسم ڈالی تو پاکستانی عوام نے بلاتفریق مسلک و مذہب اس کی تائید کی اور دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستان میں سب سے زیادہ آواز اٹھائی گئی اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔

لیکن اس سال عالمی سطح پر آنے والی تبدیلیوں اور پاکستان میں بیرونی مداخلت کے شاخسانے اور ہماری ریاست کی تائید کی وجہ سے قبلہ اول بیت المقدس کی روایتی مہم کو خراب کیا جا رہا ہے، تمام مسالک و مکاتب فکر حتی کہ ملی یکجہتی کونسل جیسے مثالی اتحاد کی طرف سے قبلہ اول کے لئے بلند ہونے والی آواز کو بے وزن کرنے کے لئے اور قبلہ اول کی آزادی کی تحریک کو متنازعہ بنانے کے لئے ایک سازش کے تحت تحفظ حرمین کے شوشے شامل کئے جا رہے ہیں اور پاکستانی عوام کو فرقہ و مسلک کے نام پر تقسیم کرتے ہوئے قبلہ اور بیت اللہ کو باہم تقسیم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جس کے تحت یوم القدس کے مقابل میں یوم تحفظ حرمین منا کر پاکستانی عوام کو اشتباہ میں ڈالا جا رہا ہے، جس کا تدارک یقیناً ضروری ہے، جو کسی حکومت کے اختیار میں نہیں بلکہ ریاست کے اختیار میں ہے۔

مسئلہ فلسطین اور قبلہ اول کی آزادی کا معاملہ ہمیشہ عالمی اداروں اور عرب ممالک کی سیاست کی بھینٹ چڑھتا چلا آرہا ہے۔ دو رخی اور دوہری پالیسیاں جہاں اس مسئلے کے حل میں رکاوٹ ہیں، وہاں مختلف ممالک اور مختلف حکمرانوں کے داخلی اور شاہی مفادات بھی بنیادی رکاوٹوں میں شامل ہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کو مورد الزام ٹھہرانا ہماری نظر میں ثانوی حیثیت رکھتا ہے، قبلہ اول کے یہودی قبضے میں جانے کے ذمہ دار بھی اسلامی ممالک یا عالم اسلام خود ہے اور فلسطین کی آزادی میں تاخیر کا ذمہ دار بھی عالم اسلام اور اسلامی ممالک خود ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ قبلہ اول کے لئے زیادہ آواز عرب ممالک کے باہر سے بلند کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ جہاں جہاں جس جس اسلامی ملک میں قبلہ اول اور فلسطین کے لئے احتجاج ہوتا ہے، وہ مقامی اسلامی تحریکوں اور تنظیموں یا مسلم عوام کی طرف سے ہوتا ہے، اسلامی ممالک کی حکومتیں اس قسم کے پروگرام نہ خود منعقد کرتی ہیں اور نہ ان کی حوصلہ افزائی کے لئے اقدامات کرتی ہیں۔

اسلامی ممالک کی نااتفاقی اور عرب ممالک کی دانستہ خاموشی قبلہ اول اور فلسطین کی آزادی میں پہلی اور آخری رکاوٹ ہے۔ گذشتہ تیس سال سے جاری احتجاج نے قبلہ اول اور فلسطین کو زندہ تو رکھا ہوا ہے لیکن اسلامی اور عرب ممالک کے کانوں تک جوں رینگنے کے لئے بھی کارگر ثابت نہیں ہوسکا۔ احتجاج کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور اس کے اثر پذیر ہونے میں بھی شک نہیں کیا جاسکتا، لیکن جب تک قرآنی عقیدے اور سنت رسول ؐ کے مطابق عالم اسلام و اسلامی ممالک بالخصوص عرب ممالک قبلہ اول کو اپنا پہلا حرم اور قبلہ و کعبہ نہیں مان لیتے، جب تک اسرائیل کو اپنی مقدس سرزمین اور مقدس حرم پر مسلط شدہ غاصب تسلیم نہیں کرلیتے، جب تک فلسطینی عوام کو مظلوم اور اسرائیل کو جارح و ظالم شمار نہیں کر لیتے، تب تک عالم اسلام میں قبلہ اول کی محبت میں تحریک پیدا نہیں ہوسکے گی اور قبلہ اول کی بازیابی و فلسطین کی آزادی کا خواب شرمندہ تعبیر رہے گا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button