مضامین

سعودی عرب، طالبان کی کتنی مدد کرتا ہے؟

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) سعودی عرب ہر سال طالبان کی تیس کروڑ ڈالر کی مدد کرتا ہے جبکہ طالبان وہ گروہ ہے جو افغان حکومت سے برسر پیکار ہے۔ افغان اراکین پارلیمان نے دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کو سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے دی جانے والی امداد پر ایسی صورت میں سخت اعتراض کیا ہے جب افغانستان کی قومی حکومت کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سعودی عرب کے دورے پر ہیں۔

پریس ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کی حکومت کی جانب سے طالبان کو لاکھوں ڈالر کی مدد دیئے جانے پر افغان رکن پارلیمنٹ ناراض ہیں اور ان کا خیال ہے کہ سعودی عرب افغانستان میں اپنے اہداف کو آگے بڑھانے کے لئے طالبان کی مدد کر رہا ہے۔

افغانستان کے ناراض ممبران پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب ہر سال طالبان کے تیس کروڑ ڈالر کی مدد کرتا ہے جبکہ طالبان وہ گروہ ہے جو افغان حکومت سے جنگ میں مصروف ہے۔

افغان رکن پارلیمنٹ جمال فكوری بہشتی نے افغان حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات پر نظر ثانی کرے کیونکہ آل سعود حکومت نے نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان اور بہت سے دوسرے ممالک میں ہمیشہ دہشت گرد گروہوں کی حمایت کی ہے۔

ایک اور افغان رہنما غلام حسین ناصری کے بقول سعودی حکمراں طالبان کو لاکھوں ڈالر دے کر فرقہ وارانہ فسادات کروانے اور افغانستان اور پاکستان میں نسلی کشیدگی اور اختلافات پیدا کرنے جیسے اہداف کو پورے کرنے کے درپے ہیں۔
افغانستان میں سعودی عرب کے اقدامات پر اعتراض میں اضافہ ایسی صورت میں ہو گیا ہے کہ افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ انہوں نے سعودی حکام سے افغانستان میں امن کے قیام کے بارے میں مذاکرات کئے ہیں۔

یمن، شام، عراق اور افغانستان سمیت مختلف ممالک میں داعش اور القاعدہ جیسے دہشت گرد گروہوں کی سعودی عرب کے وسیع حمایت نے اس نتیجے پر پہنچا دیا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت اسلامی ممالک میں اختلافات پیدا کرنے اور جنگ کی آگ بھڑکانے کی پالیسی پر چل رہی ہے ۔

 سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سعودی عرب انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کی وسیع مدد اور حمایت کرکے اختلافات پیدا کرنے اور اسلامی ممالک میں جنگ کی آگ بھڑکانے پر مبنی امریکا اور برطانیہ کی پالیسیوں کی پیروی کر رہا ہے۔ یمن، شام اور عراق میں جاری تشدد میں سعودی عرب کے کردار کو اسی پالیسی کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ الوقت

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button