مضامین

کالعدم تنظیموں کا غیر منصفانہ تجزیہ

تحریر: نصرت علی شہانی
ترجمان وفاق المدارس الشیعہ پاکستان

ارشاد الہٰٰی کی رُو سے انصاف کیلئے گواہی دینی چاہیے، چاہے اپنے، والدین یا رشتہ داروں کیخلاف ہی کیوں نہ ہو (سورۃ النساء آیت ۱۳۵) 8 اگست 2016ء کو کوئٹہ دہشتگردی میں وکلاء سمیت 70 سے زائد شہید اور 100 سے زائد زخمی ہوئے۔ سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل کمیشن قائم کیا گیا، جس کی مفصل رپورٹ چند روز قبل منظر عام پر لائی گئی۔ 110 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ایکشن پلان کے نفاذ کے حوالہ سے فاضل جج نے وفاقی وزیر داخلہ سے ایک کالعدم دہشتگرد گروہ کے سرغنہ کی ملاقات کا ذکر بھی کیا، جس پر وزیر سمیت کافی لوگوں کے بیانات میڈیا کی زینت بنتے رہے۔ 24 دسمبر کے جنگ میں "جرگہ” کے کالم نگار نے بھی کالعدم تنظیموں کے ذکر کی آڑ میں مذکورہ گروہ کے وکیل صفائی کا کردار ادا کرنے کی اپنے تئیں کوشش کی حالانکہ انہیں اور دیگر اہل قلم کو اعلیٰ عدلیہ کے اہم کمیشن کی رپورٹ کی حمایت کرنا چاہیے۔

63 کالعدم تنظیموں کی فہرست میں موصوف نے صرف 3 یا 4 کا ذکر کرنے کے بعد تمام تر زور قلم کالعدم سپاہ صحابہ کے دفاع میں صرف کیا جبکہ اس فہرست میں ایک مسجد کی انجمن اور چند ٹرسٹ بھی شامل ہیں جنہیں شاید ان کے محلے سے باہر نہ کوئی جانتا ہے اور نہ ان کے "سنگین جرائم” سے کسی کو واقفیت ہے۔ موصوف کی یہ خواہش ناقابل فہم ہے کہ سب سے یکساں سلوک کیا جائے جبکہ یہ کسی دیہات کی پنچایت سے لے کر ملکی قانون اور بین الاقوامی قانون سے لے کر الہٰی قانون تک کوئی معقول خواہش نہیں، یعنی معمولی چوری اور سینکڑوں بے گناہوں کے قتل میں مجرم کیساتھ ایک جیسا سلوک کیا جائے۔ کالم نگار کی منظور نظر تنظیم کا پہلا اور آخری تعارف، شہرت اور کردار ایک مسلمہ اسلامی مسلک کی تکفیر اور ہزاروں بے گناہوں کے سفاکانہ قتل میں ملوث ہونا ہے جس میں عام شہری سے لے کر اعلیٰ شخصیات شامل ہیں۔

سلیم صافی صاحب جس شخص کا دفاع کر رہے ہیں اس کا گزشتہ سال کا اسی میڈیا گروپ سے پیش کیا جانیوالا طلعت حسین کا پروگرام ہی ملاحظہ کر لیں جس میں لدھیانوی نے صریح ڈھٹائی سے اپنی کالعدم تنظیم کے مذموم موقف کا دفاع کیا۔ یہ تلخ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے مختلف ناموں سے تباہ کن دہشتگردی میں ملوث نئے نئے نام بالواسطہ، بلاواسطہ اسی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں۔ کالم نگار نے کالعدم سپاہ صحابہ کا تحریک جعفریہ سے تقابل کیا ہے حالانکہ تحریک جعفریہ نے کسی بھی مسلک کی تکفیر کی ہے اور نہ ہی آج تک کسی خود کش حملے، بم دھماکے یا سیکورٹی اداروں و اہلکاروں پر حملے میں ملوث ہے۔ اسے ’’بیلنس پالیسی” کے تحت کالعدم قرار دیا گیا۔ علامہ سید ساجد علی نقوی ایک جلیل القدر علمی شخصیت ہیں، جن کا اندرون و بیرون ملک علمی، سیاسی حلقوں میں ایک خاص مقام و احترام ہے جبکہ زیر بحث تکفیری گروہ سے تو اس کے اپنے ہم مسلک بھی بیزاری کا اظہار کرتے ہیں اور اسے صحابہ کرامؓ کے نام کی آڑ میں فتنہ و فساد اور دہشتگردی کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔

اہلسنت کے دین دار و معتدل حلقوں کے بقول اگر اس گروہ کا منشور و ہدف دفاع صحابہ ہوتا تو وہ ماضی قریب میں داعش کے، حضرت عمار یاسرؓ، حضرت اویس قرنیؓ و دیگر جلیل القدر صحابہ کرام کے مزارات پر حملوں کیخلاف احتجاج کرتی لیکن احتجاج تو درکنار مذمتی بیان تک جاری نہیں کیا (جہاں تک پیغمبر اکرم ؐ کی نواسی، کربلا کی شیر دل خاتون حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے مزار پر حملوں کا تعلق ہے، نہ تو اس دہشتگرد گروہ سے اس حوالہ سے کوئی امید ہے اور نہ ہی انہیں خانوادہ رسالت ؐ کی محبت و دینی مقدسات کے دفاع کی توفیق حاصل ہو سکتی ہے)۔ سلیم صافی اپنی اس رائے پر بھی نظرثانی کریں کہ پاکستان میں مسلک اور فقہ کی بنیاد پر تنظیم سازی نہ ہونی چاہیے، حالانکہ ان کا اپنا عمل اور اظہار اس کیخلاف ہے۔ جب پاکستان مذہب کے نام پر وجود میں آیا تو مسلک و مذہب کی بنیاد پر تنظیم سازی سے انکار کس لئے ؟ اصل بات کسی بھی تنظیم کے منشور، رویے اور طرز عمل کی ہے۔

جہاں تک دفاع پاکستان کونسل کے وقار و اعتبار کا تعلق ہے، اس پر بھی اصحاب الرائے کے تحفظات ہیں۔ دیوبندی مسلک کی ایک درجن کے قریب دینی سیاسی جماعتوں کے ہوتے ہوئے اس فورم میں ایک ایسی کالعدم تنظیم کو شامل کرنا کیا مجبوری ہے جس کے ہاتھ ہزاروں بے گناہوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ محب وطن حلقوں کی آنکھیں اسی وقت کھل گئی تھیں جب اس کونسل کے تاسیسی جلسوں میں ملتان میں منعقدہ جلسے میں لشکر جھنگوی کا سفاک دہشتگرد ملک اسحاق ان قائدین کیساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والی بھیانک دہشتگردی کے خاتمے کیلئے قومی ایکشن پلان، ضرب عضب کی کامیابی کیلئے عدلیہ سمیت ہر فورم سے تعاون کیا جائے اس ضمن میں میڈیا کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ ارباب میڈیا اپنی ذمہ داریاں نبھائیں۔

 

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button