ڈاکٹر قاسم، شہید راہ خدا
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر سید افتخار حسین نقوی
ساہیوال میں دہشت گردوں نے ایک مسیحا کو ابدی نیند سلا دیا۔ ڈاکٹر قاسم اپنے کلینک پر مریضوں کو چیک کر رہے تھے یا دوسرے لفظوں میں دوسروں کے دکھ درد بانٹ رہے تھے، بیمار لوگوں کی مسیحائی کر رہے تھے، دشمن کو یہ بات پسند نہ آئی اور گولیوں سے چھلنی کرکے ایک اور محب وطن، محب محمد و آل محمد، پاکستان کی نظریاتی حفاظت کرنے والے نیک سیرت، غریب پرور، مخلص پاکستانی کو قتل کرکے گو ایک پیغام دیا ہے کہ پاکستان کے محبوں اور مخالفوں کی جنگ جاری ہے اور دشمنان وطن تو موقع ملتے ہی محبان وطن کو نشانہ بنائیں گے۔ ڈاکٹر قاسم شہید ہوگیا اور اس کے بچے یتیم ہوگئے، زوجہ بیوہ ہوگئی، بہنوں سے بھائی چھن گیا، بھائیوں کا بھائی چھن گیا۔ ماں باپ کا سہارا ٹوٹ گیا، لیکن اس ملک کوکیا ملا۔ اس ملک کے اداروں کو کیا ملا۔ ایٹمی پاکستان کی عزت میں کتنا اضافہ ہوا۔
وہ جو دہشت گردوں کی کمر توڑنے کا دعویٰ کرتے تھے، ان کو کیا ملا۔ وہ جو محب وطن پاکستانیوں کو ہراساں کر رہے ہیں، فورتھ شیڈیول میں ڈال رہے ہیں، ان کو کیا ملا۔ ڈاکٹر قاسم جیسا نفیس انسان، اتحاد بین المسلمین کا داعی، مظلوموں کا حامی، ظالموں کی آنکھ کا کانٹا، آج قتل کر دیا گیا۔ پاکستان کو ایک اور لاش مل گئی، پاکستان کے اداروں کے منہ پر ایک اور طمانچہ رسید ہوا، پاکستانی ایجنسیز کے تمام دعوے جھوٹے ثابت ہوگئے۔ ظلم و بربریت کی اس واردات نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اپنی موت آپ مرچکا ہے اور پاکستان میں ایسا کوئی ادارہ نہیں ہے، جو دہشت گردوں کو ختم کرسکے، کمزور کرسکے یا ان کی کمر توڑ سکے۔
ہاں آج دہشت گردوں کی یہ ایک بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ پھر بزدلانہ کارروائی کرتے ہوئے ایک اعلٰی انسان کو قتل کر دیا۔ اس خون کا حساب کون دے گا۔ ساہیوال کی وہ انتظامیہ جو ابھی تک حالد بٹ کے قاتلوں کو نہیں پکڑ سکی یا وہ ایجنسیاں، جو بے بسی میں کہہ رہی ہیں کہ کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ قاتل کہاں سے آئے اور کہاں گئے۔ یا وزیراعلٰی پنجاب جو خادم اعلٰی ہونے کے دعویدار ہیں، یا رانا ثناء اللہ جس کے بارے میں بارہا کہا جاتا رہا ہے کہ وہ دہشت گردوں کا سہولت کار بھی ہے اور سرپرست بھی۔ یا پھر وزیراعظم پاکستان اس کا جواب دیں گے، جن کی اپنی جان پانامہ لیکس میں پھنسی ہوئی ہے یا پھر جنرل آصف باجوہ جواب دیں، جن کے خلف اٹھاتے ہی ملک کو یرغمال بنانے والے لٹیرے سیاستدانوں اور مذہبی رہنماﺅں نے افواہیں اڑا کر پتہ نہیں کیا کیا کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اگر کسی کے پاس خالد بٹ کے قتل کا حساب کتاب موجود نہیں، جواب موجود نہیں، تو شہید ڈاکٹر قاسم کے بارے میں کیا توقع کریں۔
اے میرے وطن کے مظلوموں اٹھو! یہ وقت تمہاری بیداری کا ہے، ورنہ ہر روز لاشے گرنے لگیں گے، ہر روز جنازے اٹھیں گے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ آگ! گھر گھر پہنچ جائے گی۔ اٹھو آج ایک ہوجائیں اور آج دشمن کو پیغام دے دیں کہ اگر تم ایسی حرکتوں سے باز نہ آئے تو تمہارا حشر پھر قابل دید ہوگا۔ اے ملک کے حکمرانوں! ڈرو اس وقت سے جب پانچ کروڑ شیعہ میدان میں نکل آئے تو تمہارا انجام کیا ہوگا۔ آج حکومتی ادارے جس طرح شیعہ طاقت کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ سب ناکام ہو جائے گا اور تم! جو مٹھی بھر دہشت گردوں کا مقابلہ نہیں کرسکتے، پانچ کروڑ شیعوں کا مقابلہ کیسے کرو گے۔ انصاف کرو، اس سے پہلے کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔