مضامین

متنازع اتحاد، جنرل راحیل شریف اور پاکستان

تحریر: تصور حسین شہزاد

پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف راحیل شریف سے متعلق ہم نے سعودی عرب کی حکومت کو رضا مندی ظاہر کر دی ہے۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کے دوران خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ "چاہتے ہیں کہ ایسا فیصلہ کریں جس سے سعودی عرب کیساتھ تعلقات مزید مستحکم ہوں، اس سارے معاملے کے خدوخال ایک 2 مہینے میں آجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ کسی برادر ملک پر اثرانداز نہیں ہونا چاہیے، اتحاد دہشتگردی کیخلاف بنایا جا رہا ہے۔” یہ باتیں پہلے ڈھکے چھپے انداز میں کی جا رہی تھی، تاہم اب کھل کر اس موضوع پر بحث ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے راحیل شریف کی جانب سے تاحال کوئی بیان سامنے نہیں آیا، البتہ سوشل میڈیا پر یہ موضوع گرما گرم ہے۔ راحیل شریف کی جانب سے اس اتحادی فوج کی قیادت سنبھالنے کے حق میں تو کوئی خال خال ہی بول رہا ہے، البتہ اس کی مخالفت کی شرح 75 فیصد سے زائد ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت اس فیصلے کو مسترد کر چکی ہے۔

عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ پاکستان واحد ریاست ہے جسے اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ اس کے قیام کے حوالے سے قائداعظم کی خطابات واضح ہیں۔ پاکستان اسلام کا قلعہ ہوگا، یہاں پر اسلامی نظام کے نفاذ سے ایک مثالی ریاست بنائی جائے گی۔ قائد کے زریں اقوال کی روشنی میں ہی 1973ء کا متفقہ آئین بنایا گیا۔ آئین کے لحاظ سے اقتدار اعلٰی کی مالک خدائے بزرگ و برتر کی ذات ہے اور حکمران اس اختیار کو بطور امانت استعمال کریں گے اور پاکستان میں پارلیمنٹ کو اختیارات حاصل ہوں گے۔ اب جبکہ اُمت مسلمہ کا معاملہ ہے، تو حکومت نے پارلیمنٹ کو "بائی پاس” کر دیا ہے۔ جنرل راحیل شریف ایک ایسے اتحاد کی قیادت سنبھالنے جا رہے ہیں، جو روزِاول سے ہی متنازع ہے۔ اس اتحاد میں اہم اسلامی ممالک کو شامل ہی نہیں کیا گیا جبکہ اس میں وہ ملک شامل ہیں، جن کے سعودی عرب کیساتھ مفادات وابستہ ہیں یا وہ سعودی عرب کے دست نگر ہیں۔ سعودی عرب کے حکمرانوں کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو حیران کن حقائق سامنے آتے ہیں کہ عالم اسلام کی باگ ڈور کیسے لوگوں کے ہاتھ میں دے دی گئی ہے۔؟ کعبہ کی کمائی سے شراب پینے والے کس طرح اُمت کے مسائل کو سمجھ سکتے ہیں؟ جبکہ قرآن مجید نے جن یہود و نصاریٰ سے دوستی کرنے سے منع کیا ہے، یہ انہی کی گود میں بیٹھے ہیں۔ گویا انہوں نے قرآن کی تعلیمات کو ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔

اس حوالے سے ان پر کیسے اعتماد کیا جا سکتا ہے۔ فلسطین کی سرزمین پر اسرائیل کی ناجائز ریاست قائم ہوئی، اسرائیل کی پوری دنیا نے مذمت کی لیکن سعودی عرب وہ مسلمان ملک ہے، جو آج بھی اسرائیل کا دوست ہے اور اس کیساتھ سفارتی تعلقات تک رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیلی فورسز آئے روز مظلوم اور نہتے فلسطینی مسلمانوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بناتی ہیں، لیکن سعودی عرب نے کبھی اس کی مذمت نہیں کی، بلکہ اس بربریت پر سعودی عرب کی خاموشی بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کشمیر میں بھارتی مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، برہان وانی کی شہادت کے بعد تحریک آزادی کشمیر میں ایک بار پھر شدت آئی، بھارتی فورسز نہتے اور بے گناہ کشمیریوں کو پیلٹ گنوں سے نشانہ بنا رہی ہیں۔ خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی معمول ہیں، کشمیری مسلسل کرفیو میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن سعودی عرب کے حکمران مودی کو ریاض بلاتے ہیں اور اُسے سعودی عرب کے اعلٰی ترین اعزاز سے نوازتے ہیں۔ کون سا اسلام مسلمانوں کے قاتل کو تمغے دینے کا حکم دیتا ہے؟ کم از کم "اسلامِ محمدی” میں تو اس فعل کی کہیں گنجائش نہیں ملتی۔ آج وہی سعودی عرب یمن کے نہتے عوام پر بمباری میں مصروف ہے۔

یمن میں سول آبادیوں کیساتھ ساتھ مساجد کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے، جہاں ہزاروں مساجد کیساتھ قرآن مجید کے لاکھوں نسخے اب تک شہید ہوچکے ہیں۔ یمن کے نہتے عوام کون سے دہشتگرد ہیں، فلسطین کے مظلوم اپنی زمین کی آزادی مانگتے ہیں، یہ ان کا جمہوری حق ہے، کشمیر میں جدوجہد آزادی آج کی بات نہیں بلکہ پہلے دن سے ہی وہ ڈوگرہ راج کے عتاب کا شکار چلے آ رہے ہیں، وہ دہشتگرد کیسے بن گئے؟ سعودی عرب کا اتحاد دہشتگردی کیخلاف اتحاد نہیں بلکہ یہ اُمت مسلمہ کو تقسیم کرنے کی صہیونی سازش ہے۔ اسلام دشمن قوتیں سعودی عرب کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلا رہی ہیں اور سعودی شاہی خاندان امت مسلمہ کی ترجمانی کی بجائے اسلام دشمنوں کے "سہولت کار” کا کردار ادا کر رہا ہے۔ اس متنازع اتحاد کی قیادت سے پاکستان کی اپنی حیثیت متنازع ہو جائے گی۔ وزیر دفاع سمیت دیگر اسٹیک ہولڈرز کو یہ سوچنا چاہیے کہ میاں نواز شریف کی ذات پر سعودی شاہی خاندان کے بہت احسانات ہیں، لیکن پاکستان کی اپنی حیثیت ہے، پاکستان کو ذاتی مفادات کی بھینٹ نہ چڑھایا جائے، نواز شریف کے آل سعود کیساتھ "اچھے تعلقات” اپنی جگہ، لیکن پارلیمنٹ کی بھی کوئی اہمیت ہے، اس حوالے سے ایک بار پارلیمنٹ سے رجوع کر لیا جائے اور پارلیمنٹ سے پوچھ لیا جائے کہ آیا راحیل شریف کو اس متنازع اتحاد کی قیادت کرنی چاہیے یا نہیں، پارلیمنٹ میں اکثریت حکمران جماعت کی ہے، انہیں اس حوالے سے پریشانی نہیں ہوگی، اکثریت میں ہونے کے باوجود حکومت کا پارلیمنٹ سے خوفزدہ ہونا یہ بتاتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button