قدس کی آزادی پر سمجھوتہ نامنظور
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@ gmail.com
اتحاد امت پر سبھی زور دیتے ہیں، جو اسلحہ اٹھائے پھرتے ہیں، آپ ان سے پوچھیں تو وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ اتحاد امت بہت ضروری ہے۔ اس پر بہت کانفرنسیں ہوچکی ہیں اور بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اب ضرورت یہ ہے کہ اتحاد امت کی خاطر جدید خطوط پر سوچا جائے اور پرانی اور تجربہ شدہ راہوں کو ترک کیا جائے۔ اب تک جو اتحاد امت میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، وہ چند مسلمان فرقوں یا ممالک کا خود مسلمان فرقوں اور ممالک کے خلاف ہی اکٹھے ہو جانا ہے۔ درحقیقت، اتحاد کسی کے خلاف اکٹھا ہونے کا نام نہیں ہے اور نہ ہی کسی کے ردعمل میں جمع ہو جانے کا نام اتحاد ہے۔ اتحاد بھی نماز کی طرح ایک دینی فریضہ اور مسلسل عمل ہے۔ تمام اسلامی فرق و مذاہب کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان مشکلات اور اسباب، ان رویوں اور نظریات پر نظرثانی کریں، جن کی وجہ سے امت متحد نہیں ہوسکتی۔
ہمارے ہاں پاکستان میں سب سے معتدل ترین اور پیار و محبت بانٹنے والا مسلک بریلوی مسلک ہے۔ اس مسلک کو یہ خصوصیت اور خوبی حاصل ہے کہ اس نے اکثریت کے باوجود کبھی اقلیتوں پر زبردستی اپنے عقائد نافذ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ افسوس کی بات ہے کہ کئی جگہوں پر اس مسلک کی مساجد پر قبضے کئے گئے اور اس کی کئی علمی شخصیات کو قتل کیا گیا اور اس کے نزدیک مقدس مقامات مثلاً اولیائے کرام کے مزارات پر دھماکے کئے گئے، لیکن اس کے باوجود اس مسلک نے نفرتوں، دشمنیوں اور زیادتیوں کا جواب اولیائے کرام کی تعلیمات کے مطابق پیار و محبت سے دیا ہے۔ پاکستان کا مورخ یہ لکھنے میں حق بجانب ہے کہ اس مسلک نے اکثریت میں ہونے کے باوجود، اقلیتوں کا خیال رکھا اور ان سے محبت آمیز برتاو کیا۔
پاکستان میں دوسرا نمایاں مسلک اہل تشیع کا ہے۔ اہل تشیع سے دیگر مسالک کو عرصہ دراز سے یہ شکایت تھی کہ بعض شیعہ خطباء دیگر مسالک کو برداشت نہیں کرتے اور ان کی دل شکنی کرتے ہیں۔ مجھے چند سال پہلے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ جہان تشیع کے مرجع سید علی خامنہ ای ؒ نے جہاں یہ فتویٰ صادر کیا ہے، وہیں اپنی مختلف تقریروں میں بھی یہ کہا ہے کہ خبردار کسی بھی دوسرے مسلک کی دل شکنی اور ان کے مقدسات کے بارے میں نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا حرام ہے۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص ایسا فعل انجام دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا تعلق اہل تشیع کی پڑھی لکھی اور باشعور کمیونٹی سے نہیں ہے۔ اب بے شعور اور ان پڑھ آدمی تو کسی کے بارے میں بھی کچھ بھی کہہ سکتا ہے، وہ تو خود اپنے ہی علماء اور شخصیات کے بارے میں بھی نازیبا الفاظ کہہ سکتا ہے۔ لہذا ہماری مراد پڑھے لکھے اور باشعور لوگوں کا طبقہ ہے۔
ہمارے ہاں تیسرا نمایاں مسلک ان احباب کا ہے، جنہیں ہم سلفی، اہلحدیث یا دیوبندی کہتے ہیں۔ جہاد کشمیر اور جہاد افغانستان میں سرگرم ہونے کی وجہ سے یہ احباب کم ہونے کے باوجود زیادہ پررنگ ہیں۔ ان مسالک کا عقیدتی و فکری مرکز تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ سعودی عرب کی بادشاہت و خلافت ہے۔ ان کے دینی مدارس کی تعداد اور ان کے عسکری تربیت شدہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اگر اس توانائی کو بھی مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تو یہ بھی پاکستان کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ اب انہیں بھی چاہیے کہ ملکی سلامتی اور اتحاد امت کے لئے اپنے رویوں پر نظرثانی کریں۔ اپنے مزاج میں لچک پیدا کریں اور سعودی عرب کو امریکہ و اسرائیل کے بجائے عالم اسلام سے قریب کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
دیکھیں! اگر سعودی عرب، چھوٹے چھوٹے اور اپنے ہی بنائے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف، انتالیس اسلامی ممالک کا فوجی اتحاد بنا سکتا ہے تو فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کے لئے کیوں اسلامی فوجی اتحاد نہیں بنا سکتا، اگر پچپن اسلامی ممالک کے سربراہوں کو ٹرمپ کے استقبال کے لئے جمع کرسکتا ہے تو فلسطین اور کشمیر کی آزادی کے لئے، ایک بین الاقوامی اسلامی کانفرنس، ریاض میں کیوں منعقد نہیں ہوسکتی!؟ ویسے بھی یہ ماہ رمضان المبارک ہے، اس کے آخری جمعۃ المبارک کو مسلمان یوم القدس کے نام سے مناتے ہیں، عالمی منظر نامے کے تناظر میں اس مرتبہ پاکستان کے تمام مذاہب و مسالک کو چاہیے کہ وہ مل کر یوم القدس منائیں۔
مانا کہ سعودی عرب کی کچھ مجبوریاں ہیں، جن کی وجہ سے وہاں سے قدس کی آزادی کے لئے آواز بلند نہیں ہوسکتی، لیکن پاکستان میں بسنے والے سلفی و اہل حدیث اور دیوبندی حضرات کے لئے تو کوئی مجبوری نہیں، یہ تو پاکستان میں یوم القدس کی ریلیوں میں شریک ہوسکتے ہیں۔ اگر سعودی عرب سے قدس کی آزادی کے لئے آواز بلند نہیں ہوسکتی تو پاکستان سے ہی یہ آواز بلند کی جائے۔ ایک اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کے ناتے پاکستان بھی کسی سے کم نہیں، پاکستان میں ہی بھرپور طریقے سے مل کر یوم القدس منایا جانا چاہیے۔ ہم کب تک کشمیر اور قدس کی آزادی کے لئے دوسروں کی طرف دیکھتے رہیں گے، اگر پاکستان کے تمام مسالک و مکاتب کے علماء مل کر یوم القدس کی ریلیوں میں شرکت کریں تو وہ پیغام جو سعودی عرب سے امریکہ و اسرائیل کو نہیں مل رہا، وہی پیغام پاکستان کی سرزمین سے انہیں مل جائے گا اور انہیں سمجھ آجائے گی کہ مسلمان قدس کی آزادی پر کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔