افغانستان میں داعش کیوں؟
تحریر: سید اسد عباس
دولت اسلامیہ فی العراق والشام جو بعثی سابق فوجی افسران اور چند سابق شدت پسندوں کے ذریعے امریکی جیلوں میں پروان چڑھی اور پھر کچھ ہی عرصے میں اس تنظیم نے عراق و شام کے بڑے علاقوں پر قبضہ کیا، کی کئی ایک شاخیں بتائی جاتی ہیں۔ ان شاخوں کو ولایۃ کا عنوان بھی دیا جاتا ہے۔ مثلاً ولایۃ الشام، ولایۃ یمن، ولایۃ لیبیا، ولایۃ سینا، ولایۃ الجیریۃ، ولایۃ قفقاز، افریقی گروہ اور ولایۃ خراسان۔ عراق میں تو داعش کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور اس کے بچے کھچے افراد اپنی جانیں بچانے کے لئے شام کا رخ کئے ہوئے ہیں جبکہ شام میں بھی حکومتی افواج اور اتحادی گروہوں کی جانب سے داعش کے خلاف گھیرا تنگ کیا جا چکا ہے۔ اس وقت شامی افواج دیرالزور پہنچ چکی ہیں، جو داعش کا اہم گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ لیبیا، صحرائے سینا، قفقاز اور افریقہ کے چند ممالک میں یہ گروہ اب تک موجود ہے۔ داعش کو القاعدہ کے خاتمے کے بعد منظر عام پر لایا گیا۔ یہ بات بدیہی ہے کہ عراق اور شام میں اس گروہ کی مکمل شکست کے بعد اس گروہ کا زیادہ دباؤ ان علاقوں یا ممالک کی طرف ہوگا، جہاں اب بھی ان کو کچھ خطوں پر کنڑول حاصل ہے، یا جہاں بدامنی ہے، مثلاً یمن، لیبیا، صحرائے سینا، قفقاز کے ممالک، افریقی ممالک، تاہم اس گروہ کی بہترین جنت افغانستان کی سنگلاخ وادیاں ہیں۔ ولایۃ خراسان کو ایک مذہبی اہمیت بھی حاصل ہے۔ کہا جاتا کہ آخری دور میں ظاہر ہونے والے نجات دہندہ یعنی مہدی موعود (عج) کا ایک لشکر وادی خراسان سے آئے گا، جو سیاہ پرچم اٹھائے ہوئے ہوں گے۔ اسی مناسبت سے داعش کے حامی افراد سیاہ پرچم اٹھائے اپنی تبلیغاتی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ولایۃ خراسان میں افغانستان، برصغیر پاک و ہند کے ممالک کے اراکین کو بھرتی کیا جاتا ہے۔ وہ شدت پسند تنظیمیں گروہ اور افراد جو سابقہ جہادی گروہوں سے مایوس ہوچکے ہیں یا کوئی اختلاف رکھتے ہیں، دولۃ اسلامیۃ کی اس شاخ کا حصہ بن رہے ہیں۔ افغانستان میں بعض علاقے اس گروہ کے جنگجوؤں کے زیر قبضہ بھی ہیں۔ پاکستان میں بھی ہم بعض اوقات داعش کے سیاہ پرچم اپنی سڑکوں پر آویزاں دیکھتے ہیں، جو اس بات کی علامت ہے کہ ولایۃ خراسان کی بھرتی اس ملک میں جاری ہے۔ ہم نے دیکھا کہ بھارت، برما، بنگلہ دیش اور جموں کشمیر میں بھی سیاہ پرچموں کے حامل جنگجوؤں کی تصاویر اور ویڈیوز نشر کی گئیں، تاکہ ظاہر کیا جاسکے کہ ان علاقوں میں کام جاری ہے۔
بہرحال یہ عالم اسلام کی کوئی اصلاحی تحریک نہیں اور نہ ہی اس کا تعلق آخری ہادی کے لشکر سے ہے، بلکہ اپنی پیشرو جماعت کی مانند اسے سی آئی اے، موساد اور دیگر علاقائی ایجنسیوں نے تشکیل دیا، وہی اس کی سرپرستی کر رہے ہیں اور انہیں اپنے مفادات کے لئے استعمال بھی کرتے ہیں۔ عراق اور شام میں اس کی تشکیل کے واقعات پر سے بہت سی دستاویزات اور زمینی حقائق کے ذریعے پردہ ہٹایا گیا، تاہم ولایۃ خراسان میں داعش کی پرورش پر سے نقاب کشائی کا سہرا افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کے سر جاتا ہے، جنہوں نے داعش کی افغانستان میں تشکیل پاتی قوت کے حوالے سے چند حقائق پر روشنی ڈالی۔ حامد کرزئی نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ امریکہ جب افغانستان میں امن و استحکام کے لئے آیا تھا جبکہ اس کے برعکس ملک میں تشدد بڑھ رہا ہے۔ اس موضوع پر بہرحال بات کی جانی چاہیے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ امریکی افواج اور سکیورٹی اداروں کی موجودگی میں کیسے داعش طاقت پکڑ رہی ہے۔ کرزئی صاحب کو اس سوال کا جواب یقیناً عراق اور شام میں داعش کی تشکیل کے عمل سے مل سکتا ہے۔ کیسے ابو بکر البغدادی اور سابق بعثی افسران کو اکٹھا رکھا گیا، کیسے عراقی افواج کی تربیت کی گئی اور کیسے ایک ہی حملے میں عراقی افواج اپنا اسلحہ چھوڑ چھاڑ فرار کرگئے اور عراق کا ایک بڑا علاقہ داعش کے حوالے کر گئے۔ وہاں بھی یہ سب امریکی کی ناک تلے ہوتا رہا اور امریکی حملوں کے باوجود اس نمو میں کوئی کمی واقعہ نہ ہوئی۔ وہ تو بھلا ہو روس کا جس نے بروقت مداخلت کی، داعش کے تیل کی ترسیل کے روٹس پر حملہ کیا، ان کے ہزاروں ٹینکرز کو تباہ کیا، کمانڈ اینڈ کنٹرول کے مراکز پر حملے کئے، یوں فقط تین ماہ کے اندر داعش کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔
پھر بھی زمینی افواج کو عراقی علاقوں کو داعش سے واگزار کروانے کے لئے لمبا عرصہ لگا اور اس کے لئے سینکڑوں جانوں کی قربانی دینی پڑی۔ اسی طرح شام میں یہ جنگ تاحال جاری ہے۔ کرزئی صاحب نے درست کہا کہ لوگ آکر بتاتے ہیں کہ امریکی ہیلی کاپٹر بغیر کسی نشان کے اسلحہ کے ساتھ اڑتے ہیں اور نامعلوم مقامات پر یہ اسلحہ پہنچاتے ہیں۔ شام اور عراق میں بھی داعش کے علاقوں میں ظاہراً غلطی سے امریکی اسلحہ اور خوراک گرائی جاتی رہی، بالکل اسی طرح یہ عمل افغانستان میں جاری ہے۔ چند ماہ قبل تورا بورا کے علاقے پر بھی مدر آف آل بمب گرا کر اس علاقے کو داعش کے لئے صاف کیا گیا۔ اس وقت افغانستان کے علاقے تورا بورا جو پاکستان کی سرحد سے متصل ہے، پر داعش کا قبضہ ہے۔ افغانستان میں بعض دیگر ایسے علاقے بھی موجود ہیں، جہاں داعش کا اثر و رسوخ اور قبضہ ہے۔ ظاہراً اس گروہ کو تشکیل دینے کا مقصد افغانستان میں اپنے قیام کا مزید جواز پیدا کرنا ہے، کیونکہ طالبان کے خلاف جنگ کسی صورت عالمی جنگ نہ بن سکی۔ افغانستان میں آمد کا بہانہ تو القاعدہ تھی، جو عرصہ ہوا معدوم ہوچکی۔ اب تو امریکہ ایک جارح اور مسلط قوت کی مانند اس علاقے پر قابض ہے، مقامی لوگوں سے نہ ص
رف خود جنگ آزما ہے بلکہ آپس میں لڑا رہا ہے، جس کا اظہار حامد کرزئی نے اپنے انٹریو میں بھی کیا کہ طالبان پر مزید حملے افغانستان کے مسئلے کا حل نہیں ہیں۔ سابق افغان صدر حامد کرزائی نے امریکہ کی افغان پالیسی پر بھی تنقید کی اور کہا کہ امریکہ اس خطے میں ایک اور جنگ بھڑکانے کے درپے ہے۔ اس کی افغان پالیسی میں امن کی کوئی بات نہیں۔ حامد کرزائی کا کہنا تھا کہ خطے کے اہم ممالک یعنی چین، روس، ایران اور پاکستان کی مشاورت سے ہمیں افغانستان میں پائیدار حل کے لئے کوشش کرنی چاہیے۔ لہذا افغانستان کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں جب خطے کے یہ اہم ممالک افغانستان میں امن کے لئے کوششیں بھی کر رہے ہیں، امریکہ کے پاس اس کے علاوہ کوئی جواز نہیں کہ وہ کسی عالمی طور پر مستند دہشت گرد گروہ کا بہانہ سامنے رکھ کر افغانستان میں اپنا قیام جاری رکھے۔
عراق اور شام کی مانند ولایۃ خراسان میں داعش کی تشکیل کا مقصد بھی یہی ہے کہ جنگجوؤں اور مذہبی جنونیوں کا ایک ایسا گروہ تشکیل دیا جائے، جس کا براہ راست کسی مقامی گروہ، حکومت یا ہمسایہ ریاست سے تعلق نہ ہو۔ اس عالمی خطرے کو سامنے لا کر افغانستان میں عالمی افواج بالخصوص نیٹو افواج کے قیام کو یقینی بنایا جاسکے۔ افغانستان تزویراتی اعتبار سے نہایت اہمیت کا حامل ملک ہے، جو معدنی ذخائر سے مالا مال ہونے کے ساتھ ساتھ ایشیا میں پیدا ہونے والے نئے کاروباری امکانات کے تناظر میں نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ہمسایہ ممالک کی سکیورٹی اور امن و امان بھی افغانستان کے اندر امن و امان سے جڑا ہوا ہے۔ ایسے میں کرزائی صاحب کی بات بالکل درست ہے کہ امریکہ کی افغان پالیسی میں امن کی کوئی بات نہیں۔ بہرحال امریکہ اور اسکے یورپی و ایشیائی اتحادیوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ دنیا اب نائن الیون والی دنیا نہیں ہے۔ اس دنیا کے دو بہت اہم ممالک عالمی سیاست میں پوری قوت و طاقت کے ساتھ وارد ہوچکے ہیں۔ ان ممالک نے عراق اور شام میں بھی ثابت کیا کہ وہ اپنے عالمی مفادات کا تحفظ ہر سطح پر کریں گے، خواہ اس کے لئے جنگ ہی کرنی پڑی۔ ایسی صورتحال میں، میں نہیں دیکھتا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لئے افغانستان میں سابقہ روش کو برقرار رکھنے کا کوئی موقع باقی بچا ہے۔ چین، روس، ایران اور پاکستان اپنے ہمسائے ملک میں موجود بے چینی سے بے بہرہ نہیں رہ سکتے۔ ون روڈ ون بیلٹ کے موجد اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی راہ میں کسی رکاوٹ کو نہیں آنے دیں گے۔ روس بھی نہیں چاہے گا کہ سرد جنگ کا حلیف اس کی سرحدوں پر موجود رہے۔ یہ قطبوں کے سرکنے کی گھڑی ہے۔ امریکہ اب اپنی پرانی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کے ساتھ مزید کسی ملک پر شب خون نہیں مار سکتا۔