مضامین

مشرقی غوطہ اور عفرین ۔۔دی رئیل اسٹوری

شیعہ نیوز(پاکستانی شیعہ خبررساں ادارہ) غوطہ اور عفرین دونوں ہی شام کے شہر ہیں ، غوطہ مشرقی غوطہ کہلا تا ہے کیونکہ مشرق میں واقع ہے جبکہ عفرین شام کے شمال میں واقع علاقہ ہے۔مشرقی اطراف میں غوطہ شہر کی اہمیت کا اندازہ اس طرح بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ شہر شام کے دارلحکومت دمشق کے بالکل قریب واقع ہے اور مشرق کی طرف اس کا راستہ شام کے دیگر علاقوں بشمول حجر ابن عدی، تل عراق سے ہوتا ہوا مزید مشرق کی طرف عراق کی سرحدوں سے جا ملتا ہے،یہ علاقہ گنجان آباد ہونے کے ساتھ ساتھ گھنے جنگلات پر محیط ہے۔اسی طرح عفرین شہر کی اہمیت کا اندازہ لگانا ہو تو یہ شہر شمال میں واقع ہے اور کرد باشندوں کا بڑا مرکز بھی ہے جبکہ اس کی سرحد آگے جا کر ترکی کی سرحدی علاقوں سے ملتی ہے، اس شہر کے باشندوں نے شام میں داعش اور النصرۃ سمیت فری سیرین آرمی اور دیگر دہشت گرد گروہوں سے زبردست مقابلہ کیا ہے کیونکہ یہ خود کرد ہیں اور کرد تقریبا جنگ کے بنیادی طریقہ کار سے واقف ہیں، یہاں داعش سمیت النصرہ اور فری سیرین آرمی کو کردوں کی سخت مزاحمت کا سامنا رہا جس کے باعث اس جگہ عوامی نقصان دوسرے علاقوں کی نسبت کم ہے ، اس علاقے کی خاص بات یہ رہی کہ امریکی اسرائیلی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہوں کا مقابلہ کرنے کے لئے یہاں کے مرد وزن شانہ بہ شانہ لڑے ہیں۔کہا جاتا ہے چونکہ ترکی بھی امریکا، اسرائیل اور برطامنیہ و سعودی عرب اور دیگر خلیجی ریاستوں کی طرح شامی حکومت کا خاتمہ چاہتا تھا اور اس بارے میں ترک صدر نے متعدد مرتبہ اعلانات بھی کئے تھے کہ شامی صدر کو اقتدار سے جانا ہو گا۔اس عنوان سے جہاں داعش اور النصرۃ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو امریکا اور اسرائیل کی مدد حاصل رہی وہاں فری سیرین آرمی نامی گروہ کو ترکی سے کمک ملتی رہی ہے اور ترکی نے تیل والے علاقوں پر قابض ان فری سیرین آرمی کے گروہ سے تیل کی خرید کے بڑے سودے کر کے انہیں مالی کمک پہنچائی تھی۔

بہر حال آج کل مشرقہ غوطہ اور شمال میں عفرین دونوں ہی خطرناک صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔یہ صورتحال عین ایسے وقت میں وقوع پذیر ہونا شروع ہوئی ہے کہ جب چند ماہ قبل ہی شامی حکومت اور اس کی اتحادی حکومتوں نے شام سے داعش کی حکومت کے مکمل خاتمہ کا اعلان کیا تھا اور داعش کے قبضہ میں موجود تمام مقبوضہ علاقوں کو آزاد کروا لیا گیا تھا جس کے بعد بڑی تعداد میں شامی مہاجرین جو مختلف پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہو گئے تھے ان کی بڑی تعداد کی واپسی آمد ہوئی اور اپنے اجڑے ہوئے گھروں کو از سر نو آباد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ایسے حالات میں غوطہ اور عفرین کی صورتحال سے آخر کس کو سب سے زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے؟ یہ سوال بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

یقیناًاس تمام تر صورتحال میں سب سے بڑا فائدہ تو ان دہشت گرد قوتوں کو ہو رہاہے کہ جن کے خفیہ سیل مختلف علاقوں بالخصوص عفرین میں موجود تھے، کیونکہ عفرین میں فری سیرین آرمی نامی گروہ نے قبضہ کر رکھا تھا جو کہ اب ترکی کی عفرین میں فوجی مداخلت کے بعد از سر نو سر اٹھانے لگے ہیں اور اس ساری صورتحال میں شامی افواج بھی عفرین میں عوام کا دفاع کرنے پہنچ چکی ہیں جس کے بعد ترکی کو شدید دھچکا لگا ہے اور کردوں نے پہلی مرتبہ اپنے علاقے میں شامی افواج کو خوش آمدید کہا ہے اور بڑے بڑے عوامی مظاہروں کی صورت میں استقبال کیا ہے ۔بہر حال یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ ترکی کی فوجی مداخلت سے اگر دہشت گرد فورسز کو از سر نو سر اٹھانے کا موقع مل رہاہے تو پھر ترکی کو سوچنا پڑے گا کہ ماضی کی طرح کہیں دوبارہ غلطی تو نہیں کر رہاہے۔

دوسری طرف دمشق کا مشرقی غوطہ کا علاقہ ہے کہ جہاں ایک بڑی تعداد میں ایسے گروہ موجود ہیں کہ جن کو امریکا و اسرائیل سمیت عرب خلیجی ممالک کی مکمل حمایت حاصل رہی ہے، اس میں جیش الاسلام ،ھئیۃ التحریر الشام، جبھۃ التحریر السوریۃ، فری سیرین آرمی سمیت تقریبا آٹھ متحارب گروہ موجود ہیں۔ ان تمام گروہوں میں سے چند ایک آپس میں بھی لڑائی میں مصروف عمل ہیں اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے میدان جنگ بنائے ہوئے ہیں۔واضح رہے کہ ان گروہوں کی آپسی جنگ کے نتیجہ میں علاقہ مکینوں کو بڑی تعداد میں نقصان اٹھانا پڑا ہے ، متعدد مکانات کی تباہی، قتل و غارت اور عوام کو ڈھال بنا کر ان دہشت گرد گروہوں نے اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے کی مذموم کوششیں کر رہے ہیں۔(واضح رہے کہ پاکستان میں موجود سوشل میڈیا کے نام نہاد مجاہدین کے پیٹ میں اٹھنے والا درد جو انہیں جعلی اور من گھڑت خبریں پھیلانے پر مجبور کر رہا ہے یہ سب کے سب ایسی ہی تصویریں استعمال کر رہے ہیں جو ان دہشت گرد گروہوں کیجانب سے عوام پر ظلم کے بعد بنا کر نشر کی جا رہی ہیں، اس تمام گیم کے پیچے امریکی و صیہونی ہاتھ براہ راست کارفرما ہے)

البتہ ایسا کیو اہوا ہے کہ اچانک سے ترکی کو بھی ضرورت پیش آئی ہے کہ وہ عفرین میں فوجی مداخلت کرے، اور مشرقی غوطہ میں بھی ایک مرتبہ پھر جنگ کا ماحول گرم ہوا ہے؟ اس سوال کا جواب بہت ہی آسان سا ہے کہ جیسا کہ شام میں شروع ہونیو الا مسئلہ جو کہ سنہ2011ء سے شروع ہوا اور آج تک تقریبا جاری ہے، حالیہ دنوں غوطہ اور عفرین کا مسئلہ سامنے آنا شامی حکومت اور اپوزیشن کی جماعتوں کی وہ سیاسی کامیاب حکمت عملی ہے کہ جس نے شام کے دشمنوں بالخصوص امریکا اور اسرائیل کو مزید بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ پہلے ہی امریکا اور اسرائیل سمیت خلیج عرب ریاس
تیں شام میں داعش اور النصرۃ کی ناکامی اور نابودی کا تمغہ اپنے ماتھے پر سجائے ہوئے تھے اور ایک ناکامی ان کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب اقوام متحدہ کے تعاون سے روس کی سربراہی میں ہونے والے شامی حکومت اور شامی اپوزیشن کے مذاکرات کا سلسلہ آستانہ میں شروع ہوا کہ جس کے حالیہ آخری اجلاس میں تمام سیاسی حزب اقتدار اور حزب مخالف اس بات پر متفق ہوئے کہ شام کے اندر امریکی و اسرائیلی مداخلت کسی صورت قبول نہیں کی جائے گی اور مسلح جتھوں کو خواہ وہ کسی بھی جماعت یا گروہ سے تعلق رکھتے ہوں ان سے سختی سے نمٹا جائے گا البتہ مصالحت کا راستہ کھلا ہے جو گروہ اور دہشت گرد سرغنہ ہتھیار ڈال دیں گے ان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا جائے گا۔اس مصالحت کے عمل کے تحت متعدد نامور دہشت گرد گروہوں کے سرغنہ افراد نے گذشتہ چند ایک ماہ میں اسلحہ رکھتے ہوئے مصالحت کی پالیسی کے تحت معافی نامہ حاصل کئے۔

ایسے حالات میں کہ جب ایک طرف داعش کو شکست دی گئی ہو اور دوسری طرف باغی گروہوں کے لئے بھی آسان شرائط پر معافی کا سلسلہ بنایا گیا ہو تو پھر یہ کون ہے جس کو شام کا امن وامان اور استحکام گوارہ نہیں اور اس تمام صورتحال میں شام کو شمال اور مشرق دونوں اطراف میں الجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔یقیناًا س ساری صورتحال سے اگر کسی کو فائدہ حاصل ہو رہاہے تو وہ صرف اور صرف امریکا اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button