مضامین

محمد بن سلمان۔ عہد حاضر کا صدام

امریکہ کی جارج ٹائون یونیورسٹی کے پروفیسر مہران کامرو نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں سعودی ولی عہد بن سلمان کو عصر حاضر کا صدام قرار دیتے ہوئے مغربی دنیا کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ جس طرح صدام کو دنیا کا بدترین ڈکٹیٹر اور قاتل بنانے میں مغربی طاقتوں کا ہاتھ ہے بن سلمان کو بھی عصر حاضر کا صدام بنایا جا رہا ہے۔ امریکی پروفیسر مہران کامرو کا کہنا تھا کہ جمال خاشقچی کے قتل کے بعد بن سلمان اور مغرب معاشقہ ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن امریکہ سمیت بعض طاقتوں کو خطے کی سیاست کے لیے صدام جیسے کردار کی اشد ضرورت رہتی ہے۔ بن سلمان کے مظالم کا اگرچہ ابھی آغآز ہے لیکن اپنے افتتاحی میچوں میں جس طرح اس نے اپنی کارگردگی کا مظاہرہ کیا ہے اس بے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ بن سلمان انسان کشی اور امریکی غلامی میں صدام سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔عراقی ڈکٹیٹر اور قاتل صدام 1979ء سے لیکر 2003ء تک عراق کے سیاہ و سفید کا مالک رہا اور اس نے اس برسوں میں عراق سمیت پورے علاقے میں قتل و غارت کا بازارگرم کیے رکھا۔ عراق کے اندر شیعہ مسلمانوں، کردوں اور حکومت مخالف مختلف گروہوں کو جس انداز سے صدام تکریتی نے اپنے مظالم کا نشانہ بنایا اور انہیں سیاسی و سماجی میدانوں سے نکال کر باہر کرنے کی کوشش کی عراق کے قبرستان بالخصوص عراق کے مختلف علاقوں سے دریافت ہونے والی اجتماعی قبریں اس کی گواہی دے رہی ہیں۔ آل حکیم خاندان ہو یا شہید آیت اللہ باقر الصدر اور انکی ہمشیرہ بنت الھدی کا قتل ہو سب میں صدام کا وحشی اور قاتل چہرہ مزید نمایاں ہو کر سامنے آتا ہے۔ ایران کے خلا ف آٹھ سالہ جارحیت اور لاکھوں افراد کا قتل ہو یا کویت پر چڑھائی سب صدام کا کیا دھرا ہے۔

صدام کے مظالم کا اگر سرسری ذکر بھی کیا جائے تو اس کے لیے کئی کتابیں درکار ہیں آج صدام کی روش کو ایک اور عرب شہزادہ اپنے لیے مشعل راہ قرار دے رہا ہے، یہ سعودی شہزادہ بھی صدام کی طرح اپنے ملک اور ہمسایہ ملک میں وہی کام کر رہا ہے جو بعثتی صدام نے انجام دیئے،  سعودی عرب کے شیعہ نشین علاقوں میں آج وہی صورت حال ہے جو صدام دور میں عراق کی شیعہ مسلمانوں کی تھی، آل سعود کی جیلیں اور عقوبت خانے بھی صدام کی خفیہ جیلیوں کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ صدام نے اپنے ہمسایہ ملک ایران پر جارحیت کا ارتکاب کیا تھا آج آل سعود نے غریب ہمسایہ ملک کو گذشتہ چار سال سے اپنے وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا ہوا ہے۔ صدام اپنے مخالف علماء، دانشوروں اور سیاستدانوں کو ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کرتا تھا آج آل سعود کا خاندان بھی شہید باقر النمر جیسی کسی آواز کو بلند ہونےسے پہلے ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتا ہے۔ بن سلمان اور صدام ایک ہی سکہ کے دو رخ نظر آتے ہیں لیکن بن سلمان کو صدان کا انجام نہیں بھولنا چاہیے، بن سلمان آج جن طاقتوں کے بل بوتے پر شام، یمن، بحرین، قطر، عراق او ایران کے خلاف محاذ بنا رہا ہے یہ قوتیں صدام جیسے انسانوں کو چوہے کی طرح بلوں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ بن سلمان اگر صدام کے راستے پر چلے گا تو اس کا انجام بھی صدام جیسا ہی ہو گا اور صدام کے انجام کا ذکر ہی عرب حکمرانوں کی نیندیں اڑا دیتا ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button