بابائے طالبان کے مدرسے کیلئے 30 کروڑ کی امداد اور آصف زرداری کو دھمکی
تحریر: ابو فجر لاہوری
خیبر پختونخوا حکومت کی طرف سے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے لئے 30 کروڑ روپے کی گرانٹ باقاعدہ تنازعہ بن گئی، مدرسے کے مہتمم محترم مولانا سمیع الحق نے بہت واضح طور پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ ساتھ وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید کو بھی ’’تڑی‘‘ لگا دی ہے، کہا ’’منہ نہ کھلواؤ، ورنہ پردے چاک کر دوں گا‘‘ ان دونوں حضرات نے اپنے اپنے انداز میں اس گراں قدر گرانٹ پر تنقید کی، آصف علی زرداری نے تو برہمی کا اظہار کیا تھا، مولانا سمیع الحق نے جو جمعیت علماء اسلام (س) کے بھی سربراہ ہیں، جس انداز میں بات کی اس سے تو یہی تاثر بنتا ہے کہ شاید وہ کچھ خاص باتیں جانتے ہیں کہ ابھی تک ان کی اس دھمکی کا جواب نہیں آیا۔ جہاں تک تنقید کا تعلق ہے تو یہ ہوتی ہی ہے، لیکن یہاں تو رواج ہی یہ ہوگیا کہ راز فاش کرنے کا چیلنج دیا جاتا ہے اور تو اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کی تو نوک زبان پر یہ ہوتا ہے کہ بھید کھل گیا تو پتہ چل جائے گا۔
اب مولانا سمیع الحق نے بھی کچھ اسی طرح کی بات کی۔ ہمارے علم کے مطابق یہ سب ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں اور ان کے پاس یہ راز محفوظ بھی رہتے ہیں، شاید اس لئے کہ پردہ جو اٹھے گا تو پھر بھید کھل جائیگا اور سب کا کھلے گا، ہمیں یاد ہے کہ جب مولانا مفتی محمود (مرحوم) کے بعد جمعیت علماء اسلام میں قیادت کا جھگڑا ہوا، دو صاحبزادگان ( فضل الرحمان اور امجد خان) کی ’’جنگ‘‘ بڑے زوروں پر تھی، ایسے میں کئی بار انتخابات کی باری آئی اور کئی بار بائیکاٹ ہوا، اس دور میں مولانا سمیع الحق نے ابتدا میں مولانا فضل الرحمان کی حمایت کی اور مولانا شیرانی تو بہت کھل کر صاحبزادہ مولانا فضل الرحمان کے حامی تھے، اس لڑائی میں مولانا عبید اللہ انور (مرحوم) کے صاحبزادے نے بھی حصہ ڈالا تھا، جمعیت کو متحد، کرنے کی کوشش ناکام ہوتی رہی اور پھر ایک دور وہ آگیا کہ صاحبزادگان میں سے صاحبزادہ مولانا فضل الرحمان جیت گئے، مگر مولانا سمیع الرحمن بپھر گئے اور اپنا دھڑا بنا لیا جو اب تک موجود ہے۔
جمعیت علماء اسلام کے اس تنازعہ کے زمانہ میں جو جو ایک دوسرے کے بارے میں کہا گیا، وہ ہمارے سینے میں محفوظ ہے اور مولانا سمیع الحق کے بارے میں تو ایسی بات بھی کہی گئی جو ہم زبان پر بھی نہیں لا سکتے، اس دور میں مولانا شیرانی نے جس دھڑلے سے مولانا فضل الرحمان کی گدی مضبوط کی، آج اس کا صلہ بھی پا رہے ہیں۔ بہرحال اب یہ تو آصف علی زرداری اور پرویز رشید کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کھلی دھمکی کا جواب تو دیں، ورنہ کہا جائے گا ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔‘‘ رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے، آج جھبیسواں روزہ ہے، چند روز باقی ہیں، سیاسی چپقلش بھی سست ہوگئی ہے، اب تو عید کے بعد ہی مورچے لگیں گے، قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ سیانے تو بہت ہیں، برے پھنسے والی بات ہے کہ ٹی او آر پر وہ درمیانی راہ نہیں نکال سکے، خود ان کو تحریک انصاف کا موقف اپنانا پڑ گیا۔
اب الیکشن کمیشن کے اراکین کی نامزدگی کا معاملہ ہے، وہ کہتے ہیں کہ اپوزیشن کی جماعتوں سے مشورہ ہوگا، لیکن ایسا ابھی ہوا نہیں، شاید وہ بھی عید ہی کا انتظار کر رہے ہیں، اللہ کرے کہ عید مفاہمت کا پیغام ہی لے کر آئے۔ فی الحال تو قانونی جنگ شروع کی گئی، تحریک کی دھمکی موجود ہے، جواب میں حکمران جماعت بھی خاموش نہیں، جواب برابر دیا جا رہا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ عید کے بعد پاکستان تحریک انصاف کیا حکمت عملی اختیار کرتی ہے، پیپلز پارٹی نے بھی ریفرنس دائر کیا، دوسرے کی تیاری ہے اور سڑکوں پر آنے کی بھی حمایت کی ہے، لیکن کوئی موثر پروگرام نہیں بنایا جاسکا، اس لئے انفرادی جماعتی عمل ہی سے کام شروع ہوگا، خورشید شاہ پوری اپوزیشن کو ’’اتفاق رائے‘‘ پر نہیں لاسکے اور شاید نہ لاسکیں، وہ سیانے سیاست دان ہیں، اس لئے کوئی راہ نکال لیں گے، بلاول دمادم مست قلندر کی بات کرتے رہیں، بات تو تب بنے گی، جب بے زار قوم کو اکٹھا کرکے ایک مربوط تحریک شروع ہوگی، اس حوالے سے مختلف حضرات کی اپنی اپنی رائے ہے، وزیراعظم میدان میں نہیں ہیں، وہ بھی عید کے بعد آ رہے ہیں، اس لئے ہر کام ’’عید کے بعد‘‘ ہوگا۔