دیر الزور کی آزادی اور داعش کے خلاف حتمی فتح کے آخری قدم
تحریر: حسن ہانی زادہ
اسٹریٹجک اہمیت کے حامل شام کے شہر دیر الزور کی آزادی اور گذشتہ تین برس سے داعش کے محاصرے کا شکار اس خطے میں شام آرمی کی موجودگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف شام کی حتمی فتح میں صرف ایک قدم باقی رہ گیا ہے۔ تکفیری دہشت گرد عناصر کے حوصلے پست ہو جانے کے نتیجے میں اس آپریشن میں شام آرمی کو انتہائی کم نقصان اٹھانا پڑا ہے جبکہ دوسری طرف اس خطے میں موجود داعش کی ماہر ترین انسانی قوت نابود ہوئی ہے۔
دیر الزور کا شہر شام کے مشرق میں عراق کی سرحد کے قریب واقع ہے۔ یہ خطہ گذشتہ تین برس کے دوران تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی مختلف شہروں جیسے رقہ، ادلب اور حمص کی جانب نقل و حرکت کا مرکز بنا رہا ہے۔ شام میں خانہ جنگی کو ہوا دینے والے ممالک جیسے امریکہ، ترکی، سعودی عرب اور اردن نے ہمیشہ دیر الزور شہر میں داعش کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کی پوری کوشش کی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ شام کے تیل کے کنووں کی بڑی تعداد اس شہر میں واقع ہے۔ لہذا اس خطے میں داعش کی تقویت سے مغربی طاقتوں کا بنیادی مقصد شام حکومت کو خام تیل کے ذخائر سے محروم کر کے اس کو اقتصادی دھچکہ پہنچانا تھا۔ دوسری طرف داعش اس خطے میں موجود تیل کے کنووں پر قابض ہونے کے ناطے بڑی مقدار میں خام تیل اونے پونے داموں ہمسایہ ممالک کو فروخت کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ اب شام آرمی اور اس کی اتحادی فورسز دیر الزور کی اصلی چھاونی پر قابض ہو چکی ہیں اور کئی برس سے جاری محاصرے کو توڑنے میں کامیاب ہو گئی ہیں جو داعش اور اس کے حامیوں کیلئے بہت بڑی شکست سمجھی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دیر الزور کی آزادی رقہ شہر کی آزادی کا سنگ میل ثابت ہو گی کیونکہ اب تکفیری دہشت گرد عناصر اپنا سب سے بڑا لاجسٹک مرکز یعنی دیر الزور کھو چکے ہیں۔ لہذا اب شام آرمی اور اس کی اتحادی فورسز بہت آسانی سے رقہ شہر کی طرف پیشقدمی کر سکیں گی۔ اس سے پہلے شام آرمی کی توانائیوں کا بڑا حصہ محاصرے کا شکار شہر دیر الزور میں فوجی سازوسامان اور ضروری اشیاء پہنچانے میں صرف ہو جاتا تھا۔ سیاسی اور فوجی ماہرین کا خیال ہے کہ دیر الزور شہر کی آزادی کے باعث داعش کا شام کے دیگر حصوں جیسے ادلب، حما اور حتی جنوب میں واقع شہر درعا سے رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ اس وقت داعش سے وابستہ تکفیری دہشت گرد عناصر متعدد جزیروں کی شکل میں بٹ گئے ہیں اور شام آرمی کے محاصرے میں آ چکے ہیں۔ لہذا مستقبل قریب میں شام آرمی اور اس کی اتحادی فورسز کسی بڑے نقصان کے بغیر بہت آسانی سے اس گروہ کا مکمل خاتمہ کر سکیں گے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ دیر الزور شہر کے جغرافیائی حالات بہت حد تک شام اور لبنان کی سرحد پر واقع شہر القصیر کے جغرافیائی حالات سے ملتے جلتے ہیں۔ جب القصیر شہر آزاد ہوا تھا تو داعش اور النصرہ فرنٹ سے وابستہ دہشت گرد عناصر کی بڑی تعداد وہاں سے بھاگ کر شام کے دیگر حصوں میں پناہ لینے پر مجبور ہو گئی تھی۔ شام کی موجودہ صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسی سال داعش کا مکمل خاتمہ ہونے والا ہے۔ لبنان کے سرحدی علاقے عرسال اور عراق کے شہر تلعفر کی آزادی نے بھی دیر الزور شہر کی آزادی میں موثر کردار ادا کیا ہے۔