مشرق وسطیہفتہ کی اہم خبریں

سعودی فوجی اتحاد کی بدترین شکست، راحیل شریف کے حوالے سے اہم فیصلہ

سعودی اتحادی افواج کے سربراہ راحیل شریف کوعہدے سے فارغ کیے جانے کا امکان ہے

شیعہ نیوز (پاکستانی شیعہ خبر رساں ادارہ) یمنی فوج اور عوامی رضاکار فورس کی جانب سے سعودی تیل تنصیبات اور نجران میں 3 سعودی اتحادی بٹالینز پر حملے کے ناکام دفاع کے بعد سعودی ولیعہد محمد بن سلمان کی جانب سے سعودی اتحادی افواج کے سربراہ راحیل شریف کوعہدے سے فارغ کیے جانے کا امکان ہے۔

تفصیلات کے مطابق رواں ماہ سعودی اتحادی افواج کی جارحیت کے جواب میں یمنی فوج اور عوامی رضاکار فورس انصاراللہ نے بڑی کاروائی کرتے ہوئے سعودی عرب کی تیل کی تنصیبات کو کامیابی سے نشانہ بنایا تھا جس کی یمنی فوج کے ترجمان نے ذمہ داری قبول کی تھی اور متنبہ کیا تھا کہ اگر سعودی عرب کی جانب سے یمن پر جارحیت ختم نہ ہوئی اور ہماری جنگ بندی کی آفر کو قبول نہیں کیا گیا توہماری کارروائیوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔

اس حملے بعد سعودی عرب اور امریکہ نے ان حملوں کا الزام ایران پر عائد کیا تھا لیکن دو روز قبل یمنی فوج کے ترجمان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے یمنی فوج کی جانب سے بڑی کاروائی کی خبر دی، جس میں سعودی اتحادی افواج کی 3 بریگیڈز پر حملہ، سینکڑوں سعودی اتحادی فوجیوں کی ہلاکت اور ہزاروں کے گرفتار ہونے کی خبر شامل تھی۔

یمنی فوج کی ان پے در پےکاروائیوں اور سعودی اتحادی افواج کی مسلسل شکست پر سعودی ولیعہد محمد بن سلمان نے سعودی اتحادی افواج کے سربراہ راحیل شریف کو عہدے سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

یہ خبر بھی پڑھیں ملعون محمد بن سلمان نے انبیاء کی شان میں گستاخی کرڈالی

سعودی عرب کے سوشل ایکٹویسٹس کے مطابق راحیل شریف کو عہدے سے ہٹایا جارہا ہے اور ان کی جگہ امریکی فوج کے ایک کرنل رینک کے افسر کو یہ ذمہ داری دیئے جانے کا امکان ہے، تاہم راحیل شریف سعودی عرب میں ہی اپنی خدمات انجام دیتے رہیں گے۔

واضح رہے کہ سعودی عرب نے اپنے تحفظ کیلیے ایک فوجی اتحاد بنام ’’ اسلامک ملٹری الائنس‘‘ تشکیل دیا تھا اور بیان دیا تھا کہ یہ الائنس اسلامی ممالک میں دہشتگردی کے خلاف بنایا گیا ہے، جس میں 41 ممالک کی افواج شامل ہیں اور ان کی سربراہی جنرل (ر) راحیل شریف کے سپرد کی گئی تھی۔ تاہم ان ممالک میں دہشتگردی سے مقابلہ کرنے والے 3 بڑے اسلامی ممالک شام، عراق اور ایران کی غیر موجودگی نے اس الائنس کو اسلامی فوجی اتحاد کا نام دینے پر کئی سوال اٹھا دیئے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button