آج انقلاب اسلامی کی بدولت استقامتی بلاک طاقت کا محور ہے، سید حسن نصر الله
شیعہ نیوز: لبنان کی مقاومتی تحریک "حزب اللہ” کے سیکرٹری جنرل "سید حسن نصر اللہ” نے آج یوم جانباز کی مناسبت سے خطاب کیا۔ انہوں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں ماہ شعبان کی مبارک باد دی اور حزب اللہ کے زخمیوں کی قربانی کو سراہا۔ چونکہ تین شعبان کا دن اسلامی جمہوریہ ایران میں یوم پاسدار کے نام سے منایا جاتا ہے اسی سلسلے میں سید حسن نصر اللہ نے ایران کی انقلابی گارڈز کو یوم پاسدار اور انقلاب اسلامی کی سالگرہ کی مبارک پیش کی۔ اس موقع پر سیدِ مقاومت نے کہا کہ سپاہ پاسدارانِ انقلاب شروع دن سے ہی مقامتی گروہوں کی مضبوط حامی تھی۔ انہوں نے اس امر کی وضاحت کی کہ آج استقامتی بلاک کی قدرت، انقلاب اسلامی کی برکت سے ہی ہے۔ شہدا اور زخمیوں کا پاک خون ہماری ملت و عوام کے لیے بہت زیادہ ثمرات لے کر آیا اور ان ثمرات کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ میں مقاومت گزشتہ 130 دنوں سے سیسہ پلائی دیوار بنی ہوئی ہے۔ ایک ایسی معجز نماء دیوار کہ جس کی تاریخ میں اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔
سید حسن نصر اللہ نے کہا کہ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے اب تک صیہونی رژیم کو اپنے اہداف میں شکست کا سامنا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں دوسرے ممالک کے مقاومتی مراکز اور دنیا کی مختلف اقوام غزہ کے عوام کی حمایت میں سامنے آئے۔ ہم جو کچھ بھی لبنان کے محاذ سے غزہ کی حمایت میں انجام دے رہے ہیں وہ ہمارا ملی فریضہ ہے۔ غزہ پر لبنان کا موقف انسانی اصول، اخلاقی اقدار اور ہمارے شرعی و مذہبی فریضے کے باعث ہے۔ حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل نے کہا کہ اسرائیل کا وجود خطے کے لیے شدید خطرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس رژیم کے وجود کا اعلان خطے میں تمام بحرانوں کی ابتداء ہے اور لبنان کی تاریخ اس بات کی واضح مثال ہے۔ اگر ہم صیہونی حکومت کو ایسا ہی جواب دیں جیسا کہ 2006ء میں دیا تھا تو ہم لبنان، خطے کے ممالک و اقوام کے لیے اس کے خطرات پر قابو پا سکتے ہیں۔ انہوں نے غزہ پر صیہونی حکومت کی جارحیت کے بارے میں کہا کہ غزہ سے جنگ میں شکست کے ذریعے اسرائیل کا انخلاء فلسطینیوں سے پہلے خطے کے مفاد میں ہے۔
سیدِ مقاومت نے کہا کہ قابضین کے ساتھ لبنان کی محاذ آرائی کا آغاز اسرائیل کی کامیابی کو روکنے کے لئے ہمارے اولین قومی فریضے میں سے ہے۔ بعض لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ لبنان کے محاذ پر مقاومت کی جدوجہد کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ اس سے صرف مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے مغربی وفود کی جانب سے بار بار لبنان کی یاترا کے حوالے سے کہا کہ مغربی وفود کے دورہ لبنان کا مقصد صیہونی رژیم کی حمایت اور مقبوضہ فلسطین میں قابض صیہونی آباد کاروں کی واپسی ہے۔ یہ وفود اپنی تجاویز میں غزہ پر جاریت کا بالکل بھی ذکر نہیں کرتے بلکہ ہمیں اسرائیل کے بیانات کے ذریعے ڈرانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ جنوبی لبنان کا محاذ صیہونی رژیم کو شکست دینے اور دباؤ میں لانے کے لیے ہے، تاکہ اسرائیل کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ غزہ پر اپنی جارحیت روک دے۔ سید حسن نصر اللہ نے مغرب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جہاں تک ہو سکتا ہے ہم تمہارے دباؤ کا سامنا کریں گے کیونکہ یہ امر ہمارے ارادوں پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتا اور ہمارے خلاف کوئی جنگ بھی ہمارے مقامتی حملوں کو نہیں روک سکتی۔
حزب الله کے سربراہ نے اس امر کی وضاحت کی کہ اسرائیل اس وقت نازک صورتحال سے دوچار ہے وہ ایسی حالت میں نہیں کہ ہم پر اپنی شرائط مسلط کر سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم تمام علاقائی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ اس صورتحال میں کچھ بھی ممکن ہے۔ ہم جنوبی لبنان سے غزہ کے منظرنامے کو دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب تک غزہ میں صیہونی جارحیت بند نہیں ہو جاتی جنوبی لبنان سے اسرائیل پر میزائل حملے جاری رہیں گے۔ انہوں نے اسرائیلی دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ صیہونی وزیر جنگ یہ دعوی کرتے تھے کہ جنوبی لبنان میں ان کے آپریشن جاری رہیں گے ہم اس امر کا خیر مقدم کرتے ہیں اور جنوبی لبنان سے ہمارے آپریشنز بھی جاری رہیں گے۔ انہوں نے اس بات کی وضاحت کی کہ اگر اسرائیل لبنان کے خلاف اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہناتا ہے تو جان لے کہ مقبوضہ فلسطین میں اس کے ایک لاکھ غاصب آباد کار کبھی بھی اپنے علاقوں میں نہیں لوٹ سکیں گے۔ جو کوئی بھی ہم پر جنگ وسیع کرنے کی دھمکی دے گا وہ جان لے کہ ہم بھی جنگ کا دائرہ کار بڑھا دیں گے۔
سید حسن نصر الله نے کہا کہ جو کوئی ایک لمحے کے لیے بھی جنگی میدان میں وسعت اور جدید ہتھیاروں سے استفادہ کرنے کی بات کر کے مقاومتی گروہوں کو ڈرانے کی کوشش کرتا ہے وہ غلطی پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب اسرائیل شرائط رکھنے کی طاقت کھو چکا ہے بلکہ یہ صلاحیت مقاومت کے پاس ہے کہ وہ شرائط کو طے کرے۔ لبنان بُری صورتحال سے دوچار نہیں ہے اور اسرائیل ہمیں سرحد سے چند کیلو میٹر پیچھے ہٹنے کا نہیں کہہ سکتا۔ میں لبنان کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ مذاکرات میں قرارداد 1701 کی شقوں میں اضافے کا مطالبہ کریں۔ ایک صیہونی یہ کہہ رہا تھا کہ حزب اللہ کو دریائے لیطانی کے دوسری جانب دھکیل دیا جائے لیکن اس کو یہ جواب ملتا ہے کہ حزب اللہ کو پیچھے کرنے سے بہتر ہے کہ ہم اس دریا کو ہی بارڈر لائن میں تبدیل کر دیں۔