انٹرویوہفتہ کی اہم خبریں

معروف مذہبی اسکالر علامہ امین شہیدی کا خصوصی انٹرویو (حصہ اول)

سوال: پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان پر ہونیوالے قاتلانہ حملے اور اسکے ملکی سیاسی حالات پر اور مستقبل پر مرتب ہونیوالے اثرات کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: جہاں تک عمران خان صاحب پر حملے کا تعلق ہے تو اس حملہ سے قبل گذشتہ چند دنوں سے وفاقی حکومت، آرمی اور عمران خان کے درمیان لفظی جنگ اور بیان بازیوں کے حوالے سے جو فضاء بنی ہوئی تھی، اس فضاء کے پس منظر میں یہ حملہ بڑی اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ خصوصاً اگر رانا ثناء اللہ کے بیانات کو آپ دیکھیں تو جس میں اس نے عمران خان کو کچلنے کی بات کی، عمران خان کو مچھ جیل کے مرچی حصہ میں بند کرنے کی بات کی اور اس طرح کی دھمکیاں دیں تو اس تناظر میں لوگوں کو یقیناً یہ چیزیں بری لگتی ہیں۔ لوگوں کو یہ اچھا نہیں لگتا کہ حکمران اس طرح کی زبان استعمال کریں اور عمران خان پر ہونے والے اس حملہ کے نتیجے میں جو سب سے بڑا فائدہ ہے، وہ عمران خان کو ہی ہوگا۔ چونکہ بہرحال ان کو گولی لگی، وہ موت کے منہ سے باہر آئے۔ یہ گولی ان کے سر پر بھی لگ سکتی تھی، یہ گولی ان کے دل پر بھی لگ سکتی تھی۔ لیکن وہ بچ گئے ہیں تو یہ ان کی قسمت ہے۔

ایسی صورتحال میں قوم کی ہمدردیاں یقینی طور پر عمران خان کے ساتھ ہوں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک کے اندر وہ طبقات جو غیر جانبدار تھے، ان کا جھکاو بھی عمران خان کی طرف ہوگا اور وہ طبقات جو اس حوالے سے تھوڑی سستی کا شکار تھے اور عمران خان کی ان ریلیوں اور لانگ مارچ میں شریک نہیں ہو رہے تھے، ان میں اس حملہ کی وجہ سے ایک ترغیب پیدا ہوگی۔ اس کے علاوہ عمران خان کے فالورز کے جوش و جذبہ میں یقینی طور پر اضافہ ہوگا، اس سب کا مجموعی طور پر فائدہ عمران خان اور نقصان آرمی، اسٹیبلشمنٹ اور پی ڈی ایم میں موجود ان تمام جماعتوں اور حکمرانوں کو ہوگا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حملہ کے نتیجے میں عمران خان کی جارحیت میں بھی اضافہ ہوگا اور ان کے اس جارحانہ پن کا جواب اب اخلاقی طور پر جواز نہ فوجی افسران کے پاس ہوگا نہ ہی موجودہ حکمرانون کے پاس۔

نتیجتاً عمران خان کے موقف کو تقویت ملے گی، پذیرائی میں اضافہ ہوگا اور عمران خان بہتر پوزیشن میں آجائیں گے۔ اب حکومت پر پریشر بہت زیادہ بڑھ جائے گا اور آرمی اسٹیبلشمنٹ پر بھی پریشر بڑھ جائے گا۔ پوری دنیا میں اس صورتحال کا جو میسج جاتا ہے، وہ بھی یہی ہے کہ عمران خان کی آواز کو بند کرنے کیلئے اس پر حملہ کرایا گیا ہے، یہ پوری دنیا میں خود ایک بیانیہ بن جاتا ہے۔ اس اعتبار سے آپ دیکھیں تو پاکستان کے میڈیا پر تو عمران خان چھایا ہوا ہی ہے، لیکن ساتھ میں دنیا بھر کا میڈیا بھی عمران خان کو اس حوالے سے ایک ہیرو کے طور پر پیش کرے گا اور یہ چیز یقینی طور پر پی ڈیم ایم کی حکومت کیخلاف بھی جائے گی اور آرمی اسٹیبلشمنٹ کیخلاف بھی جائے گی اور عمران خان کے موقف کو اس سے بہت زیادہ تقویت ملے گی۔

سوال: عمران خان کے لانگ مارچ کو عوامی پذیرائی کی کیا وجوہات ہیں اور کیا حکومت پی ٹی آئی سربراہ کے مطالبات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائے گی۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: موجودہ صورتحال میں عمران خان کے پاس کوئی راستہ باقی نہیں ہے کہ وہ اپنی سیاست کو آگے بڑھا سکے، اس کے علاوہ کہ اس کا رابطہ عوام کیساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہو اور رجیم چینج کے حوالے سے عمران خان کا جو بیانیہ ہے، وہ معاشرہ میں زندہ رہے، وہ سلوگنز جو نوجوان نسل کو بھی اور اہل دین اور اہل مذہب کو بھی ایٹریکٹ کرتے ہیں، ان سلوگنز کو عوام کے اندر زندہ رکھا جائے۔ موجودہ پی ڈی ایم کی حکومت کے اقدامات اور ان کے وہ تمام تر کام جو انہوں نے برسراقتدار آنے کے بعد انجام دیئے، چاہے وہ قوانین کی تبدیلی کی شکل میں ہوں، ایف آئی اے کو مضبوط کرنے کی شکل میں، نیب کے پر کاٹنے کے حوالے سے اور خصوصاً کرپشن کیخلاف بننے والے قوانین میں ایسی ترامیم جن کے نتیجے میں پاکستان کے اندر بڑی سطح کی کرپشن بالکل سادہ اور آسان ہو جائے، لیکن چھوٹی سطح کے یعنی چند ہزار یا لاکھ کے چوروں اور مجرموں کو بچنے کا موقع نہ ملے۔

اس طرح کی قانون سازیوں کے جو نتائج معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں، اس سے معاشرے کو آگاہ کرنا خود ایک بہت بڑا کام ہے، یہ چھوٹا کام نہیں ہے۔ جب تک حکمرانوں کے اس طرح کے اقدامات کو عوام کے سامنے پیش نہ کیا جائے تو لوگ اس وقت تک ذہنی طور پر کسی بڑی تبدیلی کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ عمران خان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے اس حوالے سے شعور دیا ہے اور پاکستان میں جو کرپشن کے بازار میں ہیں، ان کے حوالے سے لوگوں کے ذہن میں ایک حساسیت پیدا کرنے میں وہ کامیاب ہوگیا ہے۔ اس لئے اب دوسری طرف بھی یہ مشکل ہے کہ یہ کرپشن اگر جاری رہتی ہے، تب باقی سیاسی جماعتوں کی بقا ہے، کیونکہ وہ سیاست میں آتے ہی پیسہ کمانے کیلئے ہیں، پیسہ خرچ کرنے کیلئے تو کوئی نہیں آتا۔ اب تک جتنے لوگوں نے سیاست کا رخ کیا ہے، انہوں نے اپنے آپ کو، اپنے بچوں کو اور اپنی نسلوں کو بنایا ہے، اس قوم پر خرچ کسی نے نہیں کیا۔

دوسری طرف ہمارے فوجی جرنیلوں پر بھی بڑے بڑے الزامات موجود ہیں۔ الزام اس لئے کہ کسی میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ ان کو عدالتوں میں چیلنج کرے اور جب عدالتوں میں پیش نہیں ہوں گے تو عدالتیں کارروائی نہیں کریں گی اور نہ ہی اس طرح کے جرائم ثابت ہوں گے۔ لیکن جب ایک ریٹائرڈ فوجی جرنیل ملک کے اندر ہو، یا ملک سے باہر۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی بے پناہ دولت سامنے آتی ہے۔ اس کے بعد لوگوں کے اندر اس کے حوالے سے وہی احساسات اور جذبات جو کسی سیاستدان کے حوالے سے پیدا ہوسکتے ہیں، ان کا پیدا ہونا نیچرل ہے، لہذا یہ بات بھی فطری ہے کہ فوج کیخلاف بھی کرپٹ جرنیلوں کی وجہ سے یہی احساس و جذبات پیدا ہوں۔ دوسری طرف جب اسی کرپشن کی وجہ سے کرپٹ عناصر کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے حمایت و شیلٹر مل جائے اور ان کو اقتدار پر بٹھا دیا جائے تو عوام کی طرف سے ردعمل آنا فطری ہے اور عمران خان نے اس موقع سے ہی بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور لوگوں کی زبان بن گیا ہے۔

اب جب عمران خان لوگوں کے دلوں کی کیفیت کا ترجمان بن جائے، ان کی زبان بن جائے تو پھر اس کا راستہ روکنا آسان نہیں ہے۔ گذشتہ چھ ماہ کے دوران ساٹھ سے زیادہ بڑے جلسے کرکے اور دس سے زیادہ الیکشنز میں حصہ لیکر کامیابی حاصل کرکے عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت کو بھی ایک ایسی بند گلی میں دھکیل دیا ہے کہ اب ان کے پاس کوئی صورت باقی نہیں رہی۔ اب اس صورت میں حکومت انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرتی ہے تو خود پھنستے ہیں، اعلان نہیں کرتے تو عمران خان ان کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ عمران خان اگر اقتدار میں ہوتا تو شائد اتنا مضبوط نہ ہوتا۔ لیکن اب اقتدار سے باہر پھینک دیئے جانے کے بعد عمران خان بہت زیادہ مضبوط ہوگیا ہے۔ دوسری طرف پی ڈی ایم کی حکومت کے پاس اس وقت عوام کو دکھانے اور دینے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لئے اگر حکومت قبل از وقت انتخابات کا اعلان کردیتی ہے تو ان انتخابات میں پی ڈی ایم کو کچھ نہیں ملنا۔

اگر عمران خان عوام کو موٹیویٹ رکھنے میں کامیاب ہو جائے تو پھر ان انتخابات میں بھی پی ڈی ایم کے پاس عوام کو دینے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ اب یہ ایک اعصابی جنگ بھی ہے اور سیاسی جنگ بھی ہے، نفسیاتی جنگ بھی ہے اور عوام کو میدان میں برقرار رکھنے کا ایک چینلج بھی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جب سے عمران خان نے لانگ مارچ شروع کیا تو جی ٹی روڈ کے اطراف میں موجود شہروں نے عمران خان کو ویلکم بھی کہا ہے اور اس کا بہت بڑی سطح پر استقبال بھی کیا ہے۔ اگر عمران خان اسلام آباد پہنچ جائے اور دھرنا دے تو شائد اپنے مطالبات تک نہ پہنچ پائے، کیونکہ گذشتہ دھرنوں کے نتائج ہم دیکھ چکے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ اس وقت مکمل طور پر پی ڈی ایم کی حکومت کیساتھ کھڑی ہے اور وہ کبھی بھی نہیں چاہے گی کہ عمران خان کے بیانیے کو مضبوط کیا جائے۔

سوال: عمران خان پر حملہ سے قبل ملک کے معروف صحافی ارشد شریف کی کینیا میں ہونیوالی مظلومانہ شہادت، کونسے عناصر اس میں ملوث ہوسکتے ہیں۔؟
علامہ محمد امین شہیدی: ارشد شریف شہید یقینی طور پر جو سوالات اٹھا کر چلا گیا ہے، ان سوالات کے جوابات دینا کسی کے بس کی بات نہیں ہے، ارشد شریف نے جس طرح ببانگ دہل کھل کر اسٹیبلشمنٹ کیخلاف، فوج کیخلاف ایک مضبوط موقف دیا اور مختلف حوالوں سے ثبوتوں کیساتھ اس نے جس طرح پروگرام کئے اور ہماری سٹیبلشمنٹ کی پالیسز کو چینلج کیا، اس کے نتیجے میں ایسے بندے کا پاکستان میں محفوظ رہنا ناممکن تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو پاکستان چھوڑ کر جانا پڑا۔ اگرچہ کہا جاتا ہے کہ وہ جانا نہیں چاہتا تھا، یقیناً ایسا ہی ہوگا لیکن پاکستان میں وہ محفوظ نہیں تھا۔ یہ ثابت بھی ہوگیا کہ اگر وہ کینیا جیسے ملک میں ڈرامائی انداز میں اس طرح سے جام شہادت نوش کرتا ہے اور قتل ہو جاتا ہے تو پاکستان میں اس سے بڑے ڈرامائی انداز میں اس کو قتل کیا جاسکتا تھا۔

سوال: چند روز قبل اعلیٰ عسکری قیادت کی ہونیوالی پریس کانفرنس کو سیاسی معاملات میں مداخلت سمجھتے ہوئے غیر معمولی اہمیت دی گئی، یہ ضرورت کیوں پیش آئی۔؟َ
علامہ محمد امین شہیدی: گذشتہ سالوں کی نسبت اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے عوام کی زبانیں کھل چکی ہیں، اسٹیبشلمنٹ کا رعب اور خوف ختم ہوچکا ہے۔ لوگوں میں جرات پیدا ہوچکی ہے اور وہ حدود کو کراس کرچکے ہیں۔ آئی ایس آئی چیف اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے ظاہر کر دیا ہے کہ فوج اتنی مجبور ہوگئی ہے کہ اپنے دفاع کیلئے سیاسی بیان کر رہی ہے، تاکہ اس پریشر سے اپنے آپ کو نکال سکے۔ لیکن اس پریشر سے فوج نکل نہیں سکی۔ اب اسٹیبلشمنٹ بھی اپنی پوری کوشش کرے گی کہ عمران خان کے لوگوں کو توڑا جاسکے، جن لوگوں کو عمران خان سے اسٹیبلشمنٹ نے جوڑا تھا، ان کو دوبارہ الگ کیا جاسکے، چاہے اس کیلئے کیسا ہی حربہ استعمال کرنا پڑے۔ اگر ادھر سے عمران خان اس عوامی پریشر کا سلسلہ باقی رکھ سکے تو اپنے گھونسلے تبدیل کرنے والے سیاستدانوں کیلئے عمران خان کو چھوڑنا بڑا مسئلہ بن جائے گا۔ بہرحال یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور وقت بتائے گا کہ اس کے کیا نتائج نکلتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(جاری ہے)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button